اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں 54 ارب روپے قرضہ معافی کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ قرض معاف کرانے والے خوش اسلوبی سے رقم واپس کردیں‘ جن لوگوں نے قرض معاف کرائے وہ اصل رقم کا 75 فیصد واپس کریں‘ واپس کی گئی رقم سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جائے گی‘ مشہوری کے لئے یہاں نہیں بیٹھا، عدالت 222مقدمات بینکنگ کورٹ بھجوا کر 6ہفتوں میں مقدمات کا فیصلہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ منگل کو سپریم کورٹ میں 54ارب روپے قرضہ معافی کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کوشش ہے معاف کئے گئے قرضوں کی رقم واپس ملے۔ قرض واپسی پر مارک اپ بھی معاف ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رقم واپس نہ کرنے پر معاملہ نیب کو بھجوا دیں۔ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنا چاہتے جن لوگوں نے قرض معاف کرائے وہ اصل رقم کا 75 فیصد واپس کریں یہ معاملہ نیب کو بھیج دیا تو گڑ بڑ نکل آئے گی۔ قرض کی رقم قومی فنڈز میں نہیں جائے گی، واپس کی گئی رقم سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جائے گی اس قوم پر بہت قرض ہے۔ قرض معاف کرانے والوں کے پاس دو آپشن ہیں پہلا آپشن مقدمات کا سامنا کریں دوسرا آپشن پچھتر فیصد رقم واپس کریں۔ جس نے آپشن لینا ہے تحریری طور پر بتا دے۔ ایسے لوگوں کی جائیداد بھی ضبط کرائیں گے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ قوم کا ایک ایک پیسہ وصول کریں گے، ادا کریں یا پھر مقدمات کے لیے تیار ہو جائیں، ہوسکتا ہے وصول کی گئی رقم ملک کا قرض اتارنے کے لیے استعمال کی جائے۔ قوم کا پیسہ سب کو واپس کرنا ہو گا، بیرونی قرضے لیکر ہر شہری کو 1 لاکھ 17 ہزار کا مقروض کر دیا گیا، ممکن ہے واپس ملنے والی رقم بینکوں کو واپس نہ کریں اور قرض اتارنے کے لیے استعمال کریں، اس کام میں ججز اپنا حصہ پہلے ڈالیں گے۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کئی مقدمات میں بغیر کسی گارنٹی کے قرض لیے گئے، نجی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ عدالت کیس ٹو کیس جائزہ لیکر معاملہ بینکنگ کورٹ کو بھجوائے جبکہ نجی بینک کے وکیل نے کہا قرض کی رضا کارانہ واپسی کا آپشن دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا جس کسی نے بھی آپشن لینا ہے تحریری طور پر بتا دے، کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی۔ قوم کا ایک ایک پیسہ وصول کرنا ہے، اگر ایسا نہ کر سکا تو یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ۔ چیف جسٹس نے کہا ملک کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کیلئے موت کو بھی گلے لگا لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے قرضے معاف کرائے انہوں نے جو واپس کرنا ہیں کریں۔ اس ملک کا پیسہ واپس کیا جائے سب قبر میں نہیں لے کر جانا کچھ اس ملک کو بھی دے کر جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم قرض معافی کے تمام 222 مقدمات بینکنگ کورٹس بھجوا رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم خود کوئی مارک اپ طے کریں۔ قرض معاف کرانے والے 25 فیصد مارک اپ کی رقم ادا کریں‘ آفر قبول نہ کرنے والوں کے مقدمات بینکنگ کورٹس بھجوا سکتے ہیں۔ بینکنگ کورٹس کو 6 ہفتوں میں مقدمات کا فیصلہ کرنے کی ہدایت دے سکتے ہیں۔ پچیس فیصد قرض معافی کی رقم سپریم کورٹ کا اکائونٹ کھول کر جمع کرانے کا حکم دیں گے۔ قرض معاف والی رقم صوابدیدی فنڈز میں نہیں جانے دیں گے۔ اس رقم سے بڑے قرضے اتارنے ہیں۔ بریف کیس میں ڈال کر کیش کی صورت میں یہاں لے آئیں۔ قوم کے پیسے واپس لانے ہیں۔ خود نمائی مقصد نہیں۔ قوم کے پیسے واپس نہ لاسکے تو کرسی پر بیٹھنے کا حق نہیں ہے۔ دریں اثناء چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ملک میں جس طرح آبادی بڑھ رہی ہے یہ اضافہ نہیں بلکہ دھماکہ ہے۔ بڑھتی آبادی کی شرح پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا بچے دو ہی اچھے۔ حکومت نے اس معاملے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ گزشتہ حکومتوں نے آبادی کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ عدالت عظمیٰ نے بڑھتی ہوئی آبادی پر اٹارنی جنرل سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے بورے والا سے سابق رکن اسمبلی نذیر جٹ کی تاحیات نااہلی کے خلاف نظر ثانی اپیل خارج کردی۔ وکیل نذیر جٹ نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ موکل کیخلاف غلط بیانی کا کوئی ڈیکلریشن موجود نہیں۔ نذید جٹ نے اسمبلی رکنیت سے استعفی دیدیا تھا۔ سپریم کورٹ نے جمشید دستی کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جعلی ڈگری پر عدلیہ سے کئی ارکان نااہل ہوئے، عدالت نے آرٹیکل باسٹھ ون ایف میں تاحیات نااہلی کی مدت کا تعین کردیا۔ نذیر جٹ جعلی ڈگری پر غیرصادق اور غیرامین قرار پائے متعلقہ عدالت کا واضح فیصلہ موجود ہے۔ وکیل نے کہا نذیر جٹ کیخلاف ڈیکلریشن کے بغیر باسٹھ ون ایف لگایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نذیر جٹ اپنی ڈگری کو درست ثابت نہیں کرسکے، سپریم کورٹ کا فیصلہ ڈیکلریشن ہی ہوتا ہے، سپریم کورٹ نے سابق رکن اسمبلی نذیر جٹ کی نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نظرثانی کی اپیل خارج کردی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے ملک بھر کی فوجی چھاؤنیوں کے علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں کی 3 سال میں منتقلی کا حکم دے دیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران نمائندہ کینٹ بورڈ نے مؤقف اپنایا کہ انیس سو سے زائد سکولز مکمل غیرقانونی ہیں۔ عدالت نے تمام سکولوں کو فوری ریگولرائز کرنے کا حکم دے دیا۔ دریں اثناء چیف جسٹس آف پاکستان نے سی این جی سٹیشنز کو غیر قانونی لائسنس کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مشرف کیس میں ایک عبوری حکم کو ایشو بنایا گیا حتمی حکم کے بعد عبوری احکامات غیر موثر ہو جاتے ہیں۔ منگل کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سی این جی سٹیشنز کو غیر قانونی لائسنس فراہمی کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران وکیل اوگرا افتخار گیلانی نے موقف اپنایا کہ وزیراعظم نے لائسنس جاری کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ اوگرا کی جانب سے وزیراعظم کے احکامات پر عملدرآمد سے پہلے عدالت نے حکم امتناعی جاری کر دیا تھا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم کو ایسا حکم جاری کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ جس کے جواب میں ڈپٹی اٹارنی جنرل نے اوگرا آرڈیننس کے تحت وفاقی حکومت پالیسی گائیڈ لائن دے سکتی ہے۔ حکومت کی ہدایات کے تحت اوگرا سی این جی لائسنسوں کا اجراء بورڈ کے فیصلے کے مطابق ہی کرے گی۔ عدالت نے اوگرا کو قانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کو نمٹا دیا۔ وکیل اوگرا نے حکم امتناع کو ختم کرنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو یہ نہیں معلوم جب کیس حتمی طور پر نمٹا دیا جائے تو تمام عبوری احکامات ختم ہو جاتے ہیں۔ مشرف کیس میں ایک عبوری حکم کو ایشو بنا دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے غیر قانونی شادی ہالز کیس نمٹا دیا، عدالت نے تمام شادی ہالز کو ریگولرائزیشن چارجز ادا کرکے سی ڈی اے سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا حکم دے دیا۔ منگل کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے غیر قانونی شادی ہالز کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے میموکمیشن کیس کی سماعت کے دور ان ایف آئی اے کوقانون سازی کیلئے2 ہفتے کاوقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس آف میاں محمد ثاقب نثار نے میموکمیشن کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ حسین حقانی عدالت کے حکم کے باوجود واپس نہیں آرہے، انہوں نے عدالت سے جھوٹ بولا۔ عدالتی معاون احمر بلال نے کہا کہ بعض باتیں چیمبر میں کرنا چاہتا ہوں، ایف آئی اے کو قوانین بنانے کی ضرورت ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قوانین بنانے میں کتنا وقت لگے گا؟ احمر بلال بولے قوانین 2 ہفتے میں بن سکتے ہیں اور قوانین کے بعد عدالتی حکم پر عمل درآمد ہوسکے گا۔ سپریم کورٹ نے میموکمیشن کیس میں ایف آئی اے کوقانون سازی کیلئے2 ہفتے کا وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔ نیشن رپورٹ کے مطابق سپریم کور ٹ ایف آئی اے کو حسین حقانی کی واپسی کیلئے اقدامات کرنے کی ہدایت جاری کردی۔