برسلز (بی بی سی + این این آئی) ایران، ترکی اور اسرائیل ایک دوسرے کے علاقائی حریف ہیں اور برسوں سے ان کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ دونوں ممالک کے رشتے، بطور خاص اردگان اور عمومی طور پر ترکی انتظامیہ سے اچھے نہیں رہے ہیں۔ لیکن اب اردگان کے پاس ایگزیکٹو صدر کی نئی طاقت ہوگی کیونکہ ترکی میں وزیراعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے۔ ایسے میں اسرائیل اور ایران دونوں کیونکر خوش ہو سکتے ہیں جبکہ اردگان جنھیں'نیا سلطان' کہا جا رہا ہے انھیں پانچ سال کی نئی مدت ملی ہے؟اردگان اسرائیل کو زمین پر قبضہ کرنے والا دہشت گرد ملک کہا تھا۔ ترکی نے اسرائیل کی فلسطینوں کے ساتھ نارواسلوک برتنے کی سخت مذمت کی تھی۔ لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان کے رشتوں کے افق پر نرمی نظر آ رہی ہے۔ سنٹرسٹ نظریہ کے حامل اخبار یڈیوٹ اخرنوٹ کے سمدار پیری کا کہنا ہے کہ اردگان کے سخت رویئے کے باوجود یہ واضح ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب وہ رفتہ رفتہ لگام ڈھیلی چھوڑیں گے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اجازت دیں گے۔ ترکی اور اسرائیل ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے اہم رہے ہیں۔'درحقیقت دونوں ممالک کے درمیان تجارت معمول پر رہی ہے اور حالیہ مہینوں کے درمیان ان کے معاشی رشتے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ ترکی میں اسرائیلی مصنوعات کا سرکاری طور پر بائیکاٹ نہیں ہوا ہے اور کسی بھی تجارتی معاہدے کو منسوخ نہیں کیا گیا ہے۔ ترکی کے صدر ہمیشہ سے اسرائیل کے ناقد اور فلسطینی رہنما محمود عباس کے حامی رہے ہیں۔ ترکی کی سیاست میں اسرائیل کے ساتھ انتہائی اقدام پر بحث ہوئی ہے اور اردگان کے اہم حریف سی ایچ پی کے محرم انجے نے ان کی وکالت کی ہے۔ ایک دوسری پارٹی کرد نواز ایچ ڈی پی پارٹی نے تو یہاں تک کہا کہ 'اسرائیل کے ساتھ تمام معاشی تعلقات کو توڑ لینا چاہیے۔' خیال رہے کہ اس موقف کی سی ایچ پی بھی حمایت کرتی ہے۔اپنے سیاسی حریف کے برخلاف اردوغان اور ان کی اے کے پارٹی تجارتی محاذ پر نسبتاً کم اسرائیل مخالف رہی ہے۔ترکی کے انتخابات سے قبل اسرائیلی اخبار ہاریٹز نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ 'ترکی میں سفارتی بحران کے ابتدا کے بعد اے کے پی نے پارلیمان میں ایک قرارداد کو نامنظور کر دیا جس میں یہودی ریاست کے ساتھ تمام پرانے معاہدے کو توڑنے اور معاشی تعلقات کو ختم کرنے کی بات کہی گئی تھی۔' اردگان اور اے کے پی نے اسرائیل کے خلاف شعلہ بیانیوں کا استعمال کیا ہے لیکن اسرائیل کو پتہ ہے کہ وہ دونوں ممالک کے معاشی رابطے کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔دریں اثنا غرب اردن میں فلسطینی صدر محمود عباس نے صدر اردگان کو ان کی جیت پر مبارکباد دی ہے اور ترکی کے لیے مزید کامیابیوں، ترقیات اور استحکام کی خواہش ظاہر کی ہے۔تہران نے 'خوشی اور مسرت' کا اظہار کیا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی ان پہلے لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے ترکی میں اپنے ہم منصب کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔ ایک سرکاری بیان میں روحانی نے کہا: 'میں انتہائی خوشی اور مسرت کے ساتھ آپ کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں۔'بیان میں اس مثبت رویے کی وجہ یوں بیان کی گئی کہ ان دنوں ممالک کا 'مضبوط تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتہ' رہا ہے۔روحانی کی جانب سے اردوغان کی تعریف کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ بھی ان کی طرح سخت اسرائیل مخالف اور فلسطین کے حامی ہیں۔'اردگان کو معتدل اسلام پسند رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ وہ اسلامی اصولوں کے پابند ہیں اور ایران میں اس کی اہمیت ہے اور ان کا ماضی بھی درست رہا ہے۔روحانی کے پیغام میں مسائل کے حل اور علاقائی امن و استحکام کے فروغ کے لیے 'اچھی ہمسائیگی، باہمی عزت و احترام اور مشترکہ مفادات' کی بات بھی کہی گئی ہے۔ اگرچہ شام کے معاملے پر ترکی اور ایران کے درمیان ابتدا میں کشیدگی تھی لیکن بعد کے مراحل میں وہ روس کے ساتھ مل کر ایک ساتھ آئے۔روس، ترکی اور ایران نے شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت میں ایک سہ رخی محاذ تیار کیا جوکہ دوسری علاقائی قوتوں کے لیے برہمی کا سبب تھا۔ایرانی صدر نے اردوغان کے نئے دور حکومت میں دونوں ممالک کے درمیان رشتے میں وسعت کی امید ظاہر کی ہے۔ترکی کی فوج شام کے علاقے میں گشت کرتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہے یہ امریکہ کے ساتھ کرد فوجوں سے علاقے کو خالی کرانے کے معاہدے کے تحت ہے۔ ابراہیم خلیلی کا کہنا ہے کہ ایران اپنی معیشت کی ترقی کے لیے ترکی کو اہم حلیف کے طور پر دیکھتا ہے۔ خلیلی کہتے ہیں کہ ترکی نے امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کے دور میں پابندیوں سے بچنے کے لیے ایران کے بینک کے نظام کی مدد کی تھی اور ایران میں ڈالر اور سونے پہنچائے تھے۔ایک حتمی بات خلیلی یہ کہتے ہیں کہ اردوغان کا وڑن ایران کے منصوبے کو اس لیے بھی راس آتا ہے کہ ترکی علاقے میں سعودی عرب کے اثرات کا مخالف ہے۔اردوغان نے کھلے طور پر عراق اور پھر شام میں سعودی عرب کی موجودگی کی مخالفت کی تھی جو کہ عرب ممالک کی جانب ایران کے دشمنانہ رویے کو آسودہ کرتا ہے۔ عالمی مبصرین کے مطابق ترکی میں انتخابات شفاف اور منصفانہ نہیں تھے۔ اپوزیشن جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کے مساوی مواقع نہیںدیئے گئے۔