ایران پر جنگ گذشتہ مہینے مسلط نہیں کی گئی یہ اسلامی انقلاب اورامام خمینی کی فرانس سے آمد کے بعد مسلط کی گئی تھی۔ 10 سال صدام حسین کے ذریعے خاک و خون کا وحشیانہ کھیل کھیلا گیا لیکن ایرانی قوم نے یک جاں ہوکر مادر وطن کا دفاع کیا اور دشمنوں کے تمام عزائم کوناکام بنایا۔ایران گذشتہ 4دہائیوں سے پابندیوں کا شکار ہے جس کے لیے امریکہ نے اقوام متحدہ کو آلہ کار کے طورپر استعمال کیا ہے ایک پاکستانی دوست نے جو 80کی دہائی کے آغازپر پڑھنے کے لیے ایران آئے تھے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ایران پس ماندہ گاؤں تھا جبکہ پاکستان ترقی کرتاہوا جدید شہر تھا۔
ایران کے شہروں میں بجلی ناپید تھی۔ لوڈشیڈنگ کا دوردورہ تھا۔ شرح خواندگی 28فیصد تھی گندم برآمدکی جاتی تھی پاکستانی ڈاکٹر بڑی تعداد میں کام کرتے تھے۔ انجینئر نہ ہونے کے برابر تھے۔ انقلاب اپنے ساتھ پابندیاں اور جنگ لے کر آیا اورایران تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے قدموں پر کھڑا ہونا شروع ہوگیا۔ اوچھے امریکی ہتھکنڈے اورپابندیاں ترقی کا راستہ نہ روک سکیں آج ایران 80 ہزار میگاواٹ سے زائد فالتو بجلی پیداکررہا ہے۔ 150ڈیم بنا چکا ہے۔ پاکستان کو گیس کی فراہمی کے لیے پائپ لائن سرحد تک پہنچاچکا ہے۔لیکن پاکستانی امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی بجلی اور گیس خرید نہیں سکتا کہ مجبور وبے بس ہے پاکستان امریکی دوستی میں ہولناک تباہی وبربادی سے دو چار ہوا ہے جبکہ ایران امریکی دشمنی کی وجہ سے خود انحصاری اورترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا۔ واہ قسمت ہم نے بھی عجب مقدر پایا ہے۔
عظیم الشان اوروسیع وعریض امام خمینی انٹرنیشنل ائیرپورٹ تہران سے کوسوں میل دورہے جو پابندیوں کے دوران تعمیر کیا گیا۔ فراخ اور کشادہ شاہراہ انقلاب اور دیگر راستے دوران انقلاب مادر وطن پر اپنی جانیں نچھاور کردینے والے فرزندوں کی یاددلاتے ہیں۔جنہیں ایرانی قوم نے مدتیں گذرنے کے باوجود نہیں بھلا یا شہید چمران ‘ شہید کاظمی اورنجانے کن کن کے بورڈ عظیم قربانیوں کی یاد دلاتے ہیں ۔ہم قلب تہران میں جامعہ تہران کی طرف بڑھ رہے تھے اور جنگ کے سائے پسپا ہورہے تھے اب تک درجنوں تہرانیوں سے گفتگو ہوچکی ہے لیکن یہاں کسی کو دور سمندروں میں جاری کشیدگی کا احساس تک نہیں۔تہران میں زندگی یک گونہ ٹھہرائو اور ردھم سے جاری وساری ہے کوئی افراتفری نہیں، کوئی ہیجان نہیں،مجھے تو تہران خوابیدہ سے پرسکون شہر دکھائی دیتا ہے۔ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کے سوا کوئی بندوق بردار سپاہی دکھائی نہیں دیتا۔
اسی شہر خوابیدہ اورپرسکون سے کالم نگار کا سلام قبول کیجئے۔ جامعہ تہران کو روانگی ہے جہاں نوجوان ملت فارس منتظرہیں۔امریکہ ایران تنازعے کے اصل فریق اسرائیل کا ردعمل بڑاچونکا دینے والا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہونے اپنی کابینہ کو سختی سے ایران امریکہ تنازعہ پر خاموش رہنے کی ہدایت کی ہے۔ تل ابیب اس معرکہ آرائی میں خاموش اورغیرجانبدار رہنا چاہتاہے۔مشرقی وسطی میں سارا کھیل ہی اسرائیل کو وسعت دینے‘اس کی قانونی حقیقت کو تسلیم کرانے کیلئے کھیلا جارہا ہے جسکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ایران اورپاکستان کی خارجہ پالیسی ہے۔ جس میں فلسطینیوں کے آزاد اور خودمختار وطن کی ضمانت دی گئی تمام عرب بھائی تو مختلف حیلے بہانوں سے اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہوتے جارہے ہیں لیکن ایران اورپاکستان مظلوم فلسطینی بھائی کے حق میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایران کا دورمارمیزائل پروگرام بیک وقت سارے اسرائیل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتاہے جس کی وجہ سے اسرائیل کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے حقیقی خدشات لاحق ہوگئے ہیں جس نے اسرائیلیوں کو پسپائی پر مجبورکردیا ہے۔ ایرانی قیادت کھل کر چیلنج کر رہی ہے کہ آبنائے ہرمز حملہ آور دشمنوں کا قبرستان بنے گا جو بھی اس علاقہ میں غیر قانونی اور جارحانہ انداز میں قدم رکھے گا وہ زندہ واپس نہیں جائے گا۔ ایرانی حکام بڑے ستم ظریف ہیں اپنے عرب بھائیوں کو پیش کش کر رہے ہیں کہ امریکی دفاعی نظام یمنی ڈرونز کا مقابلہ نہیں کرپا رہا اس لئے وہ امریکی دفاعی نظام خریدنے کے بجائے ایرانی دفاعی نظام خرید کر ہر قسم کی جارحیت سے محفوظ ہو جائیں۔ (ختم شد)