اطلاعات کے مطابق رواں ماہ میں امریکہ کے شہر ’’ اورلینڈو‘‘ میں ہونیوالی FATF کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل نہ کیا جائے۔ویسے تو اس سلسلے میں آفیشل اعلان اکتوبر 2019 میں کیا جائے گا لیکن ذرائع کیمطابق پاکستان نہ صرف منی لانڈرنگ اور دہشت گرد ی کیخلاف کیے گئے اقدامات سے ممبر ممالک کو مطمئن کرنے میں کامیا ب ہو گیا ہے بلکہ اس اجلاس کے دوران پاکستان ملائیشیا کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا ہے۔ ملائیشیا، چین اور ترکی کی حمایت کی وجہ سے پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
یہ تنظیم دنیا کے ممالک اور مالیاتی اداروں کی چار اقسام میں درجہ بندی کرتی ہے۔ ایک فہرست ’’ بلیک لسٹ ‘‘ کہلاتی ہے۔اس میں وہ ممالک ہوتے ہیں جو اس تنظیم کے خیال میںمناسب قانون سازی کیلئے دنیا اور عالمی اداروں سے ’’ عدم تعاون‘‘ کر رہے ہوں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں جان بوجھ کر پیسوں کی سمگلنگ اور رشوت ستانی میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایک ’’ گرے لسٹ‘‘ جس میں ان ممالک کے نام شامل ہوتے ہیں جو عدم تعاون تو نہیں کر رہے ہوتے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں ناکافی قانون سازی کی ہوتی ہے اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اسکے بعد ایک ’’ واچ لسٹ‘‘ ۔ اس میں وہ ممالک ہوتے ہیں جن کے بارے میں ابھی مکمل طور پر کوئی فیصلہ نہیںکیا گیا ہوتا اور امکان ہوتا ہے کہ ان ممالک کے بارے میں حتمی فیصلہ اس تنظیم کے آنیوالے اجلاس میں کیاجاتا ہے۔
گزشتہ برسپاکستان کو FATF کی گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا تھا جب بھارت نے امریکہ اور برطانیہ کی حمایت کے ساتھ پاکستان کیخلاف قراردار پیش کی تھی۔ پاکستان کو اس قرارداد کو ناکام بنانے کیلئے ممبر ممالک میں سے کم از کم تین ممالک کی حمایت درکار تھی۔ اس وقت صرف ترکی نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا جبکہ چین نے ووٹ ڈالنے سے اجتناب کیا تھا۔ اس وقتچین کے پاکستان کو ووٹ نہ دینے کی ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ چین ِجولائی 2019 سے ایک برس کیلئے اس تنظیم کی صدارت کا امیدوار تھا اور شاید ان حالات میں چین کیلئے ممکن نہ تھا کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ پاکستان کی سائیڈ لے تاکہ اسکی ’’ غیر جانبداری‘‘ پر کوئی ملک انگلی نہ اٹھا سکے۔ ظاہر ہے کہ بھارت ایسے موقع سے بڑھ چڑھ کر فائدہ اٹھاتا۔ اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت اگر چین یہ تمام خطرہ مول لیکر پاکستان کو ووٹ دے بھی دیتا تو اسکا کوئی فائدہ نہ ہوتا کیونکہ چین کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد بھی پاکستان کو مطلوبہ تعداد یعنی تین ممالک میں حمایت حاصل نہ ہوتی ۔اس کے بعد سے اب تک بھارت امریکی آشیر باد کے ساتھ پاکستان کو بلیک لسٹ میںشامل کروانے کی پوری کوشش کر رہا ہے ۔ بھارت کی یہ خواہش ناقابل فہم نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بھارت کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ رواں برس جنوری میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہونیوالی FATF کی میٹنگ میں اکثر ممالک نے پاکستان کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا تھا لیکن بھارت پاکستان کیخلاف لابنگ کرتا رہا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی ٹیکنیکل یا مالی معاملات پر بات کرنے کی بجائے بھارت بار بار ایک ہی راگ الاپ رہا تھا کہ پاکستان بتائے کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد کے خلافپاکستان نے کیا اقدامات کئے ہیں۔ گزشتہ ماہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے فنانس منسٹرمسٹر ارن جیٹلینے کھل کر کہا تھا کہ بھارت کی تمام تر کوشش ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اس مالیاتی فورم کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ رہا امریکہ تو امریکہ کی پاکستان سے مخالفت کا تعلق بھیFATF کے قوانین سے زیادہامریکہ کے سیاسی اور فوجی مفادات سے وابستہ ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ افغانستان میں ’’ ڈو مور‘‘ کے مطالبے اورچین کے ساتھ پاکستان کے اچھے اور دوستانہ مراسم کو لیکر امریکہ پاکستان سیناخوش ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان زیادہ سے زیادہ معاشی مشکلات کا شکار ہو تاکہ امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے( خدانخواستہ)۔
گرے یا بلیک لسٹ میں نام کی شمولیت رکوانے کیلئے تو تین ممالک کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب ایک بار نام اس لسٹ میں شامل ہو جائے ( جیسا کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل ہے ) تو اس نام کو نکلوانے کیلئے کم از کم 15 ممالک کی حمایت درکار ہے۔ ایک اندازے کیمطابق گرے لسٹ میں نام کی شمولیت کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ تقریباََ دس بلین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اس لیے ہماری وزارت خارجہ کو اسی پر بس نہیں کرنی چاہئیے بلکہ انکا ٹارگٹ یہ ہونا چاہئیے کہ FATF کے اگلے اجلاس میں جو کہ اکتوبر میں پیرس میںہونا ہے ، پاکستان مطلوبہ ممالک کی حمایت حاصل کر کے اپنا نام گرے لسٹ سے خارج کروانے میںبھی کامیاب ہو جائے۔