وطن عزیز کی تعمیر کیلئے دریائوں کے معجزے

گزشتہ دنوں آف شور آئل ڈرلنگ کا خوب چرچا ہوا۔ قوم کیکڑا I سے معجزہ کی منتظر تھی۔ توقع تھی کہ آنے والے وقتوں میں پچاس برسوں کیلئے تیل کی ملکی ضروریات پوری ہونگی۔ تیل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی نہ ہی ادھار لیا جائیگا۔ ملک کی معیشت کو بڑا سہارا ملے گا لیکن 100 ملین ڈالر خرچ کر کے OGDCL, PPL ، اور غیر ملکی کمپنیوں کی تکنیکی کاوشوں اور 121 دنوں کی محنت اور 5634 میٹر کی گہرائی تک ڈرلنگ کے باوجود نتیجہ صفر بتایا گیا۔ یاد رہے کہ مذکورہ تیل کی تلاش کا منصوبہ مئی 2018ء میں گزشتہ حکومت نے بنایا تھا جس کی ڈرلنگ کی ابتداء 13 جنوری 2019ء کو ہوئی۔ آف شور ڈرلنگ زور شور سے جاری تھی اور تقریباً 5000 میٹر کی گہرائی تک پہنچ چکی تو رگ پر شدید پریشر آیا جس کا مطلب تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ یہی بات وفاقی وزیر پیٹرولیم نے بھی کہی پھر کیا ۔ وفاقی وزیر پیٹرولیم کو 18 اپریل 2019ء کو عہدہ سے ہٹایا گیا۔ نگران وزیر پیٹرولیم مہر بہزاد خان کھوسو نے جو پہلا کام کیا وہ تھا کیکڑا I کے منصوبہ کے کنسورشیم کے سربراہ ،OGDCL کے مینجنگ ڈائریکٹر مسعود صدیقی کو ہٹایا گیا ا ور اس کا منہ بند کرنے کیلئے چند الزامات بھی لگائے گئے۔ 3 مئی 2019ء کو ریاض خان کو OGDCL کا قائم مقام ایم ڈی مقرر کیا گیا۔ ریاض خان نے آتے ہی کیکڑا I سے متعلق متضاد بیانات دئیے پھر 18 مئی 2019 ء کو 5634 میٹر گہرائی تک ڈرلنگ ہونے کے بعد کہا گیا کہ کیکڑا I میں تیل نہیں ہے اور کونئین کا دہانہ بند کیا گیا۔ قوم یک بار مایوس ہو گئی۔
آجکل پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے اوراس بحران سے دریائوں کے معجزے ہی نکال سکتے ہیں۔ مہمند ڈیم پرتعمیر کا کام جاری ہے ا ور اسکے مکمل ہونے پر 800 میگاواٹ پن بجلی کی پیداوار ہو گی اور پشاور ویلی دائمی طور پر سیلابوں سے محفوظ ہو گی۔ بھاشا ڈیم پر بھی کام چل پڑا ہے۔ یہ دونوں منصوبہ جات موجودہ حکومت کے دورمیں مکمل نہیں ہونگے مگر مستقل طور پر پاکستان کی معیشت کی بحالی میں معاون ہونگے۔ کالا باغ ڈیم تیار منصوبہ ہے۔ تعمیر کرنے کے حکم جاری ہونے کے چند ماہ کے اندر تعمیراتی کام کا آغاز ہو گا اور موجودہ حکومت کے دور میں مکمل ہو جائیگا۔ اس ڈیم سے براہ راست اور بالواسطہ کاشتکاری کیلئے پچاس لاکھ ایکڑ بنجر زمین زیر کاشت ہو گی اور بجلی کی ہائیڈرو پاور سے ملک کی آبادی اور صنعت کو وافر ، سستی بجلی مہیا ہو گی۔ سرکاری خزانہ کو کم از کم بیس ارب ڈالر سالانہ کی آمدن ہو گی۔ تیل و گیس سے بجلی کی جنریشن کو کم کیا جا سکے گا جس سے تیل و گیس کی درآمد میں کمی آئیگی اور تجارتی خسارہ ختم ہو جائیگا۔
سندھ کے حکمران مہرفتح علی تالپور نے 1799ء میں دریائے سندھ کے سمندر میں داخل ہونے سے چند میل اوپر بہائو پر جہاں اسکے اندر ایک جزیرہ تھا، علی بندر کے آر پار ایک بند بنوایا تھا۔ سر ہنری پوٹنگر مزید لکھتے ہیں کہ اس بند کے ایک طرف دریائے سندھ کا تازہ پانی ٹکراتا ہے اور دوسری طرف سمندر کی بلند لہریں اس سے ٹکراتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کی بہبود کے اس بند کی تعمیر سے پہلے سمندر کا کھارا پانی بارہ میل تک اوپر دریا میں آتا تھا اور موسم بہار کی عمدہ فصلوں کو برباد کرتا تھا جو کہ چاروں طرف علاقہ میں پیدا ہوتی ہیں۔ بند سے نیچے دریائے سندھ کولونی یعنی نمکین کہتے ہیں اور بند سے اوپر گونی یعنی پراثر یا نفع بخش کہتے ہیں۔ سر ہنری پوٹنگرکے بیان کردہ اس حقیقت سے پردہ اٹھتا ہے کہ 1799ء میں دریائے سندھ اور دیگر چھ بڑے معاون دریائوں پرکوئی ڈیم نہیں تھے تب بھی سمندر کا پانی بارہ میل اوپر بہائو پر چڑھ آتا تھا اور اب جبکہ ڈیم بنے ہیں تو اب بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ انڈس ڈیلٹا کے متعلق سندھ اور غیر ملکی تحقیق کاروں کو اپنی سوچ بدلنا چاہئے۔ دریائے سندھ میںکھارے پانی کا اوپر چڑھ آنے کے عمل کو فقط انجینئرنگ اسٹرکچر تعمیر کر کے روکا جا سکتا ہے جیسا کہ میر فتح علی تالپور نے موزوں مقام پر بند بندھوایا اور 1799ء سے کئی برس بعد تک جب ہنری پوٹنگر نے دریائے سندھ میں سفر کیا تو اس نے اس بند کا مشاہدہ کیا اور اپنے سفر نامہ میں ذکر بھی کیا۔
ہم نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ دریائے سندھ کے سمندر میں چھوڑ کے مقام سے اوپر بہائو پر کھارو چھان سے چند کلومیٹر اوپر تک دریائے سندھ کا پیندہ کہیں تین یا چار میٹر سطح سمندر سے نیچے ہے تو کہیںا وپر ہے۔ مگر جہاں دریائے سندھ کی دو شاخیں بنتی ہیں اسے چند کلومیٹر اوپر بہائو پر ایک مقام پر دریائے سندھ کا پیندہ سطح سمندر سے سات میٹر بلند ہے۔ اس مقام سے اوپر دریائے سندھ کا پھیلائو بھی زیادہ ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں پر میر فتح علی تالپور نے بند بندھوا کر سمندر کے کھارے پانی کو دریا کے اوپر بہائو میں آنے سے روک دیا تھا اور پھر سندھ پر تالپوروں کی حکمرانی ختم ہوئی تو دریائے سندھ پر بنا ہوا یہ بند بھی بے توجہی کا شکار ہوا اور سدِمآرب کی طرح طلاطم خیز پانی کی لہروں کا دبائو برداشت نہ کر سکا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ اب ڈیلٹا کے علاقہ کی زمین کلر ہو گئی ہے اور موسم بہار کی فصلیں جو میر فتح علی تالپور کے بنائے بندکی وجہ سے لہلہاتی تھیں اور خوب پیداوار دیتی تھیں اب وہاں ایسی فصلیں نہیں ہوتیں۔
سندھ کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ دریائے سندھ میں سمندر کا کھارا پانی ٹھٹہ سجاول پل تک یا اگھی مانی تک چڑھ آتا ہے۔ جس سے دریا کے دونوں کناروں پر لاکھوں ایکڑ زمین برباد ہو گئی ہے۔ اس کو روکنے کیلئے انجینئرنگ اسٹرکچر تعمیر کیا جائے۔ دریا کے دونوں کناروں پر بنے بچائو بندکو مضبوط اور مطلوبہ بلندی تک بلند کیا جائے تو دریا کے چھوڑ کے قریب بند سے لیکر کوٹڑی تک پانی کا بہت بڑا ذخیرہ بن جائیگا۔ یہ پانی کوٹڑی سے کراچی تک دریا کے قریب آبادی اور ٹھٹھہ اورکراچی شہر کیلئے صاف صحت بخش میٹھا پانی مہیا کرنے کے بعد ضلع ٹھٹھہ، کراچی اور سجاول میں کاشتکاری کے پانی کی کمی پوری کریگی۔ ساحلی علاقہ میں بھی نہریں پہنچائی جائیں تو وہاں پر بھی آئل پام ، زیتون، پپیتا اور دیگر پھلوں کے علاوہ وافر سبزیاں اور چاول اور گندم کاشت ہو گی یوں کراچی سے لیکر حیدر آباد تک پھل اور سبزیاں مہیا ہونگی۔ خوردنی تیل میں خود کفیل ہونگے اور معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہو گا۔ کھاروچھان انجینئرنگ اسٹرکچر پر کام کا آغاز ہو گا تو سندھ کے عوام میں اعتماد بڑھے گا اور ڈیم دشمن غیروں کے وظیفہ خوروں کا پروپیگنڈہ بے اثر ہو گا اور کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں سندھ کے عوام کی مزاحمت میں کمی آئیگی اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹیں ختم ہونگی۔ حکومت کو چاہئے کہ تمام کاسمیٹک ترقیاتی منصوبے ختم کرکے رقم ڈیموںکی تعمیر کیلئے مختص کرے اور کالا باغ ڈیم اور کھارو چھان بند کی تعمیر کا آغاز کر کے معاشی بحران سے دائمی طور پر چھٹکارہ حاصل کرے۔

ای پیپر دی نیشن