’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ سعید آسی کا تین ممالک مالدیپ‘ برونائی اور انڈونیشیا کا مشترکہ سیاحت نامہ ہے۔ قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کے تحت شائع کردہ انتہائی دیدہ زیب رنگوں سے مزین ٹائٹل اور بہترین معیار کے آرٹ پیپر پر مبنی عمدہ کتابت کے ساتھ یہ سفرنامہ پہلی نظر میں ہی آنکھوں کو بھا جاتا ہے۔سفر نامے دیگر موضوعات کی نسبت زیادہ پڑھے جاتے ہیں لیکن مصنف اگر سعید آسی جیسا منجھا ہوا صحافی‘ تجزیہ کار اور دانشور ہو تو پختہ سوچ ‘ گہرے مشاہدے اور وسیع تجربات پر مبنی ایسی تحاریر برسوں تک اذہان پر نقش رہتی ہیں۔ مصنف نے انتساب اپنے ہاتھوں کی ان لکیروں کے نام کیا ہے جو مقدر کے سفر کی رازداں ہیں۔ایسا کمال انتساب سعید آسی ایسا صاحب اسلوب اور صاحب ذوق ہی لکھ سکتا ہے۔الفاظ کا استعمال بھی کوئی سعید آسی سے سیکھے۔ حرف اول کا آغاز یوں کرتے ہیں۔’’ مجھے اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میرے مقدرات کے سفر کی کہانی رنگین سے زیادہ سنگین ہے۔ مجھے بیرونی سفر کا کم کم ہی موقع ملا ہے مگر جتنے بھی سفر طے ہوئے اس میں کوشش یہی رہی کہ جس دھرتی پر قیام ہے وہاں کی معاشرت‘ رہن سہن‘ تہذیب و ثقافت اور طرز حکمرانی کا اپنے وطن عزیز کے ساتھ موازنہ کر کے اچھائی اور برائی کا کھوج لگایا جائے۔ اپنے اسی مشاہدے اور تجسس کو لفظوں کی زبان دے کر اوراق میں سموتے سموتے ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ کی شکل میں سامنے آ گئی‘‘۔
سعید آسی کے ادب و صحافت کے باوقار سفر کا اظہار کرتے ہوئے علامہ عبدالستار عاصم اور فاروق چوہان لکھتے ہیں کہ سعید آسی کا شمار میدان ادب و صحافت کے شہسواروں میںہوتا ہے جنہوں نے ستر کی دہائی میں اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا اور آج بھی ان کا قلم علم و ادب کی روشنی بکھیر رہا ہے۔سعید آسی کی علمی‘ صحافتی اور ادبی خدمات کو چند صفحات میں مقید کرنا ممکن نہیں تاہم ان دونوں اصحاب نے انتہائی اختصار مگر جامع انداز میں سعید آسی کا بھرپور تعارف کروایا ہے ۔
یہ سفرنامہ سعید آسی کے برادر اسلامی ممالک برونائی‘ انڈونیشیا اور مالدیپ میں گزارے گئے ایام کے مشاہدات کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں پل پل رونما ہونے والے سیاسی مدوجزر کی داستان بھی اپنے مختصر دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔سعید آسی نے بہت سے واقعات کو داستان کی شکل میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے جس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ قاری کسی بھی لمحے خود کو الگ تھلگ محسوس نہیں کرتا بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اس سفر کا خود بھی حصہ ہو۔ سفرنامے کی اصل خوبصورتی بھی یہی ہوتی ہے۔ قاری جیسے جیسے پڑھتا جاتا ہے وہ واقعات کو تصویر کشی کی صورت میں اپنے ذہن میں ڈھالتا چلا جاتا ہے اور یہ تصویر کشی ایک فلم کی صورت میں برسوں تک اس کے ذہن میں چلتی رہتی ہے ۔
پہلا سفر نامہ مالدیپ سے متعلق ہے۔ یہ سفر سعید آسی نے 1990ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ کیا تھا۔ یہ نواز شریف کا حکومت سنبھالنے کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ سفرنامے کا پہلا باب کالا پانی ہے جس میں سعید آسی نے کالے پانی کی سزا پر انتہائی دلچسپ معلومات لکھی ہیں۔سفرنامہ بعض اوقات پڑھتے ہوئے سسپنس سے بھرپور ایک جاسوسی ناول کا گمان ہوتا ہے۔ چند سطور ملاحظہ کیجئے۔ ’’ایسے خوبصورت مناظر آنکھوں کو پہلے دیکھنے کو نہیں ملے تھے۔ جہاز نے نیچے کی سمت بڑھنا شرو ع کر دیا۔ ایک مقام پر پانی کے درمیان کافی دور تک سبزہ نظر آیا۔’’یہی مالے ایئرپورٹ ہو گا‘‘۔ ایک دوست نے اطلاع دینے کے انداز میں آواز بلند کی مگر جہاز وہاں سے آگے گزر گیا۔ ’’پائلٹ راستہ تو نہیں بھول گیا‘‘ دوسری آواز آئی۔ ’’نہیں جہاز بائیں جانب سے چکر لگا کر یہیں پر اترے گا‘‘۔ اعتماد سے بھری ہوئی تیسری آواز‘ جیسے یہ صاحب پہلے بھی مالدیپ آ چکے ہوں مگر قیافے غلط ثابت ہوئے۔ دو تین جزیرے مزید گزر گئے۔ جہاز آگے بڑھتا رہا اور پانی میں فراٹے بھرتی ہوئی لانچیں تصورات میں نئی دنیا آباد کرتی رہیں۔ پھر ایک جزیرہ آیا۔ پہلے قیافے غلط ہونے کے باعث کسی کو مزید اندازے لگانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ جہاز ایک دم زمین کی جانب آنے لگا لیکن نیچے زمین کی بجائے پانی ہی پانی تھا۔ ’’کیا ہم پانی میں اتریں گے؟‘‘۔ ایک خوفزدہ آواز۔ ’’اگر پائلٹ بروقت بریک نہ لگا سکا تو پھر ہماری منزل سمندر کے نیچے ہی ہو گی۔ چالاک لہریں ہمارا استقبال کریں گی۔ سمندری مچھلیاں ہماری خاطر تواضع کریں گی۔سب کلمہ پڑھ لیجئے‘‘۔
یہ باب سفر کی اطلاع‘ تیاری اور پہنچنے تک کے تمام مراحل پر مبنی ہے اور انتہائی باریک پہلوئوں کو بھی کتاب کی نذر کیا گیا ہے جس سے تحریر مزید جاندار اور پرکشش ہوجاتی ہے۔ ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ دوسرا باب ہے۔ یہ مالدیپ پہنچنے کے بعد وہاں کی مصروفیات کے بارے میں ہے۔سارک سربراہ کانفرنس کا انعقاد مالے کے لوگوں کے لئے بھی حیران کن تھا۔ سعید آسی لکھتے ہیں’’ بیک وقت چھ ممالک کے سربراہان اپنے وفود کے ساتھ چھوٹے سے ملک مالدیپ میں آئے ہوئے تھے۔ ایسے ملک میں جہاں غربت و افلاس ہر گھر کی دہلیز سے گزر کر اندر داخل ہو چکی ہے‘ جہاں پانی بے مزہ ہے‘ ڈھنگ کا کھانا نہیں ملتا‘ جہاں زرق برق لباس تصورات سے بہت بلند ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں مالدیوین باشندوں کے لئے سارک کانفرنس کسی روایتی میلے سے کم نہیں تھی‘‘۔اگلے چاروں ابواب میں سارک کانفرنس کا احوال انتہائی مفصل انداز میں بیان کیا گیا۔ دلچسپ اور یادگار واقعات کو وقفے وقفے سے سفرنامے کا حصہ بنایا گیا ہے تاکہ قاری کی دلچسپی برقرار رہے اور اسے معلومات کا خزانہ بھی ملتا رہے۔
برونائی کا سفر سعید آسی نے محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ مارچ 1996میں طے کیا ۔ اس سفر کا پہلا باب سفر ہمسفر کے نام سے ہے۔ ابتدا میں سعید آسی نے اس تمام عمل کا نقشہ کھینچا ہے جس میں صحافی کو بیرونی سرکاری دورے پر جانے کے لئے ہنگامی طور پر آگاہ کیا جاتا ہے اور عجب اتفاق ہے کہ عموماً اس وقت پاسپورٹ کی مدت بھی ختم ہو رہی ہوتی ہے۔ ارجنٹ پاسپورٹ بننے سے لے کر روانگی تک کا حال بیان کرتے ہوئے سعید آسی لکھتے ہیں۔’’ لاہور ایئر پورٹ پر پی آئی اے کے جہاز پی کے 380کے تمام مسافر اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ جہاز روانگی کے لئے تیار تھا کہ مائیک پر پائلٹ کی آواز گونجنے لگی۔ ’’ خواتین و حضرات توجہ فرمائیں۔ جہاز کے ایک مسافر کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے اور وہ جہاز سے اتر کر نیچے واپس چلا گیا ہے اس لئے اب حفاظتی نکتہ نگاہ سے قواعد و ضوابط کے مطابق پورے جہاز کی تلاشی لی جائے گی تاکہ یہ اطمینان کیا جا سکے کہ جہاز سے اتر کر واپس جانے والا مسافر کوئی مشکوک چیز تو جہاز کے اندر نہیں چھوڑ گیا۔ آپ تمام خواتین و حضرات سے درخواست ہے کہ اپنا اپنا دستی سامان لے کر جہاز سے نیچے اتر آئیں تاکہ تلاشی کا عمل شروع کیا جا سکے‘‘۔ اس طرح کے واقعات سفر کا حصہ ہوتے ہیں تاہم مسافر بعض اوقات ایسے حالات کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے۔ سعید آسی نے ایسے واقعات کو نہایت اچھوتے انداز میں تحریر کیا ہے جس سے تحریر کی دلچسپی مزید بڑھ جاتی ہے۔برونائی کے سفر کو سعید آسی نے سات ابواب میں تقسیم کیا ہے۔اس کے باب ’’ٹرپل ایم‘‘ میں سعید آسی نے برونائی کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے جو تاریخ کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ عام قارئین کے علم کی پیاس بجھاتی ہے۔برونائی میں وزیراعظم بینظیر نے برونائی یونیورسٹی کا پہلا دورہ کیا تھا۔اس کے بعد وہ شاہی پولو میچ دیکھنے گئیں تاہم صحافیوں کو پولو گرائونڈ نہیں لے جایا گیا۔ بعد ازاں صحافیوں کو برونائی کے مختلف سیاحتی مقامات کی سیر کرائی گئی۔ ان کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہے۔ سعید آسی نے ایک ایسے پارک کا بھی ذکر کیا جہاں پر نہ صرف داخلہ مفت تھا بلکہ پارک میں لگائی گئی فلائنگ لفٹ‘ رولر کوسٹر وغیرہ بھی مفت استعمال کی جا سکتی تھیں۔
انڈونیشیا اس سفرنامے کا تیسرا اور آخری حصہ ہے اور پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس سفر میں وزیراعظم بینظیر بھٹو‘ آصف زرداری اور نصرت بھٹو موجود تھیں۔صدر سہارتو سے ان کی ملاقات اور انڈونیشیا میں دیگر مصروفیات کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے اورانڈونیشیا کے بارے میں دلچسپ اور ضروری معلوما ت کے علاوہ پاکستان اور انڈونیشیا کا تقابلی جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ سعید آسی کا سفر نامہ ہی نہیں بلکہ ان کی قلمی مہارتوں کی ایک شاندار کاوش بھی ہے جسے انہوں نے ایک کتاب کی صورت میں قارئین کے لئے پیش کیا ہے۔ وہ یقینا ایسے مزید سینکڑوں واقعات اور معلومات کا خزانہ رکھتے ہوں گے اور انہیں کسی وقت اپنی یہ یادداشتیں اسی طرح کاغذ پر منتقل کردینی چاہئیں کیونکہ اس سفرنامے کے بعد ایک نیا سعید آسی ہمارے سامنے آیا ہے جو سفرکی باریکیوں ‘ پیش آمدہ یادگار واقعات اور دوران سفر لطائف اور طنز و مزاح کو اس قدر خوبصورت انداز سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔