اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے نجی ادویہ ساز کمپنی کی جانب سے قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ملک میں ادویات سازوں کا بہت بڑا مافیا ہے لیکن حکومت صرف کاغذی کارروائی کرتی ہے اور فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں، حکومت خود کچھ کرتی نہیں فیصلے کرنے کیلئے معاملہ عدالت کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں ادویات سازوں کا بہت بڑا مافیا ہے انہوں نے استفسار کیا کہ وفاقی کابینہ نے ادویات کی قیمتوں سے متعلق کوئی فیصلہ کیا؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ معاملہ کابینہ نہیں ٹاسک فورس کو بھیجا گیا تھا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے ٹاسک فورس فیصلہ کرنے کے بجائے معاملے پر بیٹھ ہی گئی ہے،چیف جسٹس نے سوال کیاکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آخر کیا کر رہی ہے؟ حکومت کو معلوم ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے۔ ادویات ساز کمپنیاں ہوں یا خریدار سب ہی غیر یقینی صورتحال میں رہتے ہیں، ادویہ ساز کمپنیاں خام مال خریداری کے نام پر سارا منافع باہر بھیج دیتی ہیں،افسوس ہوتا ہے کہ حکومت کوئی کام نہیں کر رہی، ڈریپ کہتی ہے مٹھی گرم کرو تو سارا کام ہوجائے گا، حکومت خود فیصلہ کرتی نہیں اور ہائی کورٹ کے فیصلے چیلنج کرتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نجی کمپنی نے باسکو پان نامی دوائی مارکیٹ سے غائب کر رکھی ہے، دوائی کی قیمت پوری نہ ملے تو مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ڈریپ بروقت فیصلہ نہ کرے مقررہ مدت کے بعد ازخود قیمت بڑھ جاتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا نجی کمپنی نے آٹھ دوائیوں کی قیمت بڑھائی، ڈریپ نے ایکشن لیا تو سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناعی دے رکھا ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ نجی کمپنی کے وکیل دوسری عدالت میں مصروف ہیں،جس پر کیس کی مزید سماعت سوموار تک ملتوی کر دی۔