بچے کے پیچھے کھانا کھلانے کے لیے دوڑنے والی ماں بہت زیادہ نظر انداز کی جانے والی مخلوق ہے ۔ جب آپ گھر میں اطمینان سے ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوں تو بیک گراؤنڈ میں اپنے چھوٹے بچے کے پیچھے کھانے کا پیالہ لے کر دوڑنے والی ماں پر غور کیجئے گا۔ اس کے بال اس کی چٹیا کی قید میں نہیں رہتے ۔ چہرہ پسینے سے لال اور جسم دکھ رہا ہوتا ہے ۔چھوٹا بچہ کھانا کھانے میں اپنی ماں کو بہت ستاتا ہے ۔ اس کی ماں روازنہ بیٹھ کر گنتی ہے کہ آج میرے بچے کے پیٹ میں کتنے نوالے گئے ؟ اس کی ہڈیاں کب مضبوط ہونگی؟ یہ جو اس کے بازو میری انگلیوں کی گرفت میں بآسانی آ جائیں گے ، ان کے پٹھے کب نمایاں ہونگے ۔۔۔گویا جو ہم بچے کو اچانک دیکھ کر کہتے ہیں کہ ارے اتنا بڑا ہو گیا؟ تو ماں اس کی انچ انچ لمبائی ناپ رہی ہوتی ہے ۔۔بچے کو اس عمر میں ہنس دینا چاہیئے ، اب تو اسے چلنا چاہیئے ، اب کچھ لفظ بولنے چاہئیں۔۔وہ خود کو اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے ریکارڈ کی ایک ڈائری بنا لیتی ہے ۔۔وہ اس کے منہ میں پھل کا ایک ٹکڑا ڈالنے کے لئے پورے لان کا چکر لگا لیتی ہے ۔۔کبھی اس کو ڈانٹ دیتی ہے ، کبھی خود روٹھ جاتی ہے ۔کبھی تھک کر بیٹھنے کا سوچتی ہے مگر پھر ہمت پکڑتی ہے ۔۔اس دوران وہ اپنا کھانا بھول جاتی ہے ۔شادی بیاہ ہو یا سالگرہ۔۔'پہلے اس کو کھلا لوں پھر ایک ہی بار بیٹھ کر کھاؤں گی'۔ لیکن اس کی یہ پریشانی ، یہ حساب کتاب ، یہ دوڑنا بھاگنا کسی کو نظر نہیں آتا۔۔"بیٹا کمزور ہو گیا ہے "،"ابھی تک اس کا رنگ پھیکا ہی ہے "،"اس کا قد لگتا ہے ٹھہر گیا ہے "…
آخر یہ سننے میں آتا ہے کہ ماں ہے کھانا کھلا کر کوئی احسان تھوڑا کیا ہے ۔۔ تو دل میں جواب آتا ہے کہ ماں ہے تبھی احسان پر احسان کرتی چلی جاتی ہے ۔۔لقمہ بچے کے پیٹ میں جاتا ہے اور راحت ماں کو ملتی ہے ۔۔یہ ماں ہی ہے جو گردن کے پیچھے چھپا معمولی زخم بھی ڈھونڈ نکالتی ہے ۔وہ ساری زندگی مرہم لگاتی ہے
عجب مخلوق
Jun 27, 2020