قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں کو نظر انداز کرنے سے مالیاتی بحران شدید ھو گا، تحقیقی رپورٹیں

کراچی(کامرس رپورٹر)کورونا وباء کے نتیجے میں پیدا ھونے والی معاشی سْست روی اور بجلی کی مانگ میں کمی کے تناظر میں تھر میں وسیع پیمانے پر لگائے جانے والے کوئلہ کے منصوبوں اور قابلِ تجدید توانائی کو پالیسی اور عملی طور پر نظر انداز کرنے سے پاکستان کا مالیاتی بحران شدت اختیار کرے گا۔ اِس خدشہ کا اظہارپاکستان میں بجلی کے شعبہ پر انسٹیٹیوْٹ فار انرجی، اکنامک اینڈ فنانشئل انیلیسز (Institute of Energy Economics and Financial Analysis- IEEFA) اور ورلڈ وِنڈ انرجی ایسوسی ایشن (World Wind Energy Association-WWEA)نامی دو بین الاقوامی اداروں کی طرف سے مرتب ھونے والی دو علیحدہ تحقیقی رپورٹوں میں کیا گیا ھے۔ ان تحقیقی رپورٹوں کے مطابق کوئلہ او تھرمل بجلی گھروں کو کیپیسٹی چارجز کی مد میں ھونے والی ادائیگی اور بجلی کی طلب سے زائد پیداواری صلاحیت سے بجلی کی لاگت اور قیمت کے ساتھ ساتھ ملک کے گردشی قرضوں میں اضافہ ھو گا۔
متذکرہ تحقیقی رپورٹوں کا اجراء جمعہ کو ایک آن لائن تقریب میں کیا گیا۔ 'پاکستان میں بجلی کا بحران اور سندھ میں قابلِ تجدید توانائی کے تقاضے' کے موضوْع پر ھونے والی اِس آن لائن تقریب کا اھتمام الائینس فار کلائیمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی (Alliance for Climate Justice and Celan Energy) نے کیا تھا۔ دونوں تحقیقی رپورٹوں میں سندھ کی قابل تجدید توانائی کے شعبہ میں ممکنہ پیداواری استعداد کو استعمال کرنے کی اھمیت پر زور دیا گیاھے۔ چوْنکہ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں کیپیسٹی چارجز کی ادائیگی نہیں ھوتی لہٰذا سندھ میں قابل تجدید توانائی کے منصوْبوں کو فروغ دینے سے ارزاں اور ماحول دوست بجلی پیدا ھوگی۔ IEEFA کی تحقیقی رپورٹ کے مْصنف سائمن نِکولس نے کہا کہ حکوْمت پاکستان پہلے ہی کیپیسٹی چارجز کی مد میں ھونے والی ادائیگیوں کی سنگینی سے بخوبی آگاہ ھے اور چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کے تحت لگائے جانے والے کوئلہ کے منصوْبوں میں کیپیسٹی چارجز کا مسئلہ حکوْمت چین کے سامنے رکھا ھے۔اْنہوں نے کہا کہ: "وزیر اعظم عمران خان نے اِس بات کا نوٹس لیا ھے کہ بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو کیپیسٹی چارجز کی مد میں 1.5 ٹریلئن روپے (US $ 9bn) کی ادائیگی غیر دیرپا ھے۔ لہٰذا حکوْمت پاکستان نے سی پیک (CPEC) کے تحت 30بلئین ڈالر کی سرمایہ کاری سے لگائے جانے والے 12GW بجلی کے منصوبوں کے حوالے سے آسان شرائط پر ادائیگیوں کی درخواست کی ھے"۔ کوئلہ کے منصوبوں سے جْڑی مالی سنگینی کے باوجود تھر میں شنگھائی الیکٹرک اور تھر انرجی لمیٹد کے دو نئے منصوبے لگانا نا قابل فہم ھے۔ اْنہوں نے کہا کہ کورونا وباء سے پہلے پاکستان میں بجلی کے شعبہ کو کیپیسٹی چارجز اور طلب سے زائد پیداواری صلاحیت کے مسائل درپیش تھے۔ تاھم حالیہ معاشی سست روی اور بجلی کی طلب میں کمی کے باعث اِن مسائل میں اضافہ ھوگا اور پاکستان کا مالی بحران شدت اختیار کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...