صادق جذبوں طیب رزقوں والے

کسی بھی کام کو بہ خوبی انجام دینے کے لیے سب سے پہلے شوق درکار ہوتا ہے لیکن ذوق رفتہ رفتہ، تدریجاً توجہ اور انہماک سے پیدا ہوتا ہے۔ ہم ایک قوم کی حیثیت سے بہت پُرشوق ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بہت جذباتی لوگ ہیں۔ اس کا بڑا سبب ہمارا جغرافیہ، آب و ہوا اور ماحول ہے۔ ہم لوگ اپنی تحریر و تقریر میں مبالغہ آمیزی ضرورت سے زیادہ کرتے ہیں۔ اگر آپ اس مبالغہ آمیزی کی نوعیت کو جاننا چاہیں تو ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈ جیب میں ڈال کر کسی بے تکلف محفل میں چلے جائیں اور ایک آدھ گھنٹے تک ساری گفتگو ریکارڈ کر لیں اور پھر اپنی سہولت کے مطابق اسے آرام سے سنیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم عام طور پر اپنی گفتگو میں کتنی مبالغہ آمیزی روا رکھتے ہیں لیکن ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کیونکہ یہ ہمارا مجموعی قومی مزاج ہے۔ آپ مختلف آوازیں سنیں گے مثلاً جو کچھ آج ہو رہا ہے دنیا کی پوری تاریخ میں نہیں ہوا۔ فلاں شخص سے بُرا حکمران اس سے پہلے کبھی نہیں آیا ۔ حد ہو گئی ہے، چینی اور آٹے کا اتنا خوفناک بحران اس سے پہلے کبھی دیکھا نہ سنا وغیرہ وغیرہ۔ ’حد ہو گئی ہے‘ ہمارا تکیہ کلام ہے لیکن حقیقت وہی ہے جس کا اظہار میر تقی میر نے آج سے تین سو سال پہلے ایک شعر میں کیا تھا:
جب سے جہاں ہے تب سے خرابی یہی ہے میر
تم دیکھ دیکھ دہر کو حیران کیا رہے
ہم بچپن سے سنا کرتے تھے کہ زمانۂ حال کی دنیا بہت خراب ہے۔ اور کیوں نہ ہو آخر چودھویں صدی ہے۔ چنانچہ یقین ہو گیا تھا کہ چودھویں صدی میں قیامت آ جائے گی اور دنیا ختم ہو جائے گی۔ پھر چودھویں صدی ختم ہو گئی اور کچھ نہ ہوا تب میں چالیس سالہ ادھیڑ عمر پروفیسر تھا۔ پریشان ہوا کہ قیامت کیوں نہیں آئی۔ ایک دن میں نذیر احمد کا ایک ناول پڑھ رہا تھا۔ اس میں 1857ء کے انتہائی پر آشوب واقعات کے پس منظر میں ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا تھا: یہ سب کچھ کیوں نہ ہو۔ آخر تیرھویں صدی ہے۔ تب میں اپنے اس نقطۂ نظر کو ترک کرنے پر مجبور ہوا کہ ماضی میں سب اچھا تھا اور معلوم ہوا کہ دنیا کی پوری تاریخ ہی ایسی ہے جس میں انسانوں نے انسانوں کا بے دریغ خون بہایا ہے اور اس کے لیے ہر کسی نے مختلف حیلے تراش رکھے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں کی یہ فطرت کیوں ہے کہ ایک فرد دوسرے کا دشمن ہے اور ایک قوم دوسری قوم کے درپے ہے؟اس کے لیے اچھی خاصی فلسفیانہ بحث کی ضرورت ہے جس کے لیے ’کالم‘ موزوں ذریعۂ اظہار نہیں۔ بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ زمانہ سدا ایسا ہی رہا ہے۔ 
میں دوبارہ اپنے قومی مزاج کے ذکرِ خیر کی طر ف لوٹتا ہوں۔ ہماری قوم بہت ذہین ہے اور محنت پر آمادہ ہو تو مشکل سے مشکل کام کر گزرتی ہے مادی وسائل کی بھی کمی نہیں مخیرحضرات بھی خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اعلیٰ درجے کے ہنرمند بھی ہیں۔ ہمارے عام مستری ایسے ایسے آلات کو مرمت کر کے قابل استعمال بنا دیتے ہیں جنھیں اکثر ملکوں کے کاریگر اٹھا کر پھینک دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی ایسی عادات کی فراوانی بھی ہے جو کسی ملک یا قوم کی ترقی کے لیے تباہ کُن ہیں۔ ہم اکثر لوگ سمجھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ سارا نظام ہماری وجہ سے چل رہا ہے ہم لوگ’چودھری‘ بننے کے بہت شائق ہیں۔ ہم عموماً اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے۔ گھنٹوں گپ شپ کرتے ہیں۔ اپنا قیمتی وقت غیبت میں برباد کر تے ہیں۔ کسی کی ترقی سے حسد کرتے ہیں خواہ اس ترقی سے ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو۔ قومی ذرائع کو ضائع کرنے سے ہمیں کوئی دکھ نہیں ہوتا۔ ہر کام میں ’دونمبری‘ کرتے ہیں اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے نجی محفلوں میں اس پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن اصلاح کون کرے؟
مژدہ باد اے مرگ، عیسیٰ آپ ہی بیمار ہے
بہرطور قارئین کی خدمت میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ اس ہفتہ وار کالم میں میری کوشش یہ ہوگی کہ زیادہ توجہ ادبی اور تعلیمی نکات کی طرف مبذول کرائوں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں تقریباً ساٹھ سال سے بچوں کو شعر و ادب کی تعلیم دے رہا ہوں۔ اس طویل عرصے میں جو کچھ سیکھا اور سکھایا ہے ان تجربات میں اپنے عزیز قارئین کو بھی شریک کروں۔ ضروری نہیں کہ میرے نتائج سے سب کو اتفاق ہو لیکن میں ان نتائج تک پوری زندگی صرف کر کے پہنچا ہوں اس لیے ان کی کچھ نہ کچھ افادیت ضرور ہے۔ آپ میرے خیالات کو پڑھیں ۔ ان کے بارے میں اچھا یا برا ردِعمل جو بھی آپ کے ذہنوں میں پیدا ہو اس پر غور کریں۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنی تحریر میں زیادہ جذباتیت سے انحراف کروں اور مبالغہ آمیزی سے اجتناب کروں لیکن اپنا نقطۂ نظر پوری دیانت داری سے آپ تک پہنچائوں۔ میں ادب اور تعلیم کے علاوہ حسبِ ضرورت دیگر سیاسی ،سماجی اور ثقافتی مسائل کی طرف بھی اشارے کروں گا تا کہ ’شوقِ فراواں‘ کی حامل ہماری قوم باذوق مشاہیر اور ان کے خیالات و نظریات سے بھی آگاہی حاصل کر سکے۔ اللہ سے دعاگو ہوں کہ وہ ہم سب کو مبالغہ آمیزی، تکبر، لالچ، حسد، خوشامد اور خود نمائی جیسی عاداتِ بد سے بچنے اور اعلیٰ اقدار پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جن کے لہو سے نکھر رہی ہیں یہ سرسبز ہمیشگیاں
ازلوں سے وہ صادق جذبوں طیب رزقوں والے تھے
(مجید امجد)   

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...