واشنگٹن (این این آئی) امریکی صدرجوبائیڈن نے کہاہے کہ افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، افغانستان کا مستقبل افغانوں ہی کے ہاتھ میں ہے۔ امریکا اور افغانستان کے درمیان پارٹنرشپ ختم نہیں ہو رہی، یہ قائم رہے گی، افغانستان سے فوجیوں کا انخلا ہورہا ہے مگر فوجی اور اقتصادی تعاون ختم نہیں ہورہا، جب کوئی مشکل کام درپیش ہوتا ہے تو وہ افغان صدرکے بارے میں تصورکرتے ہیں۔ بے حسی پر مبنی تشدد کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے، جوبائیڈن نے انخلاء کے بعد بھی تعاون اور ہرممکن مدد کی یقین دہانی کرائی۔ ادھرافغان صدر اشرف غنی نے نیٹو انخلاء کے بعد طالبان کے چھ ماہ میں کابل پر قبضے کی پیش گوئیوں پر مسکراتے ہوئے کہاہے کہ اس طرح کی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے امریکی صدر جوبائیڈن سے وائٹ ہائوس میں ملاقات کی چیئرمین مصالحتی کمشن عبداللہ عبداللہ بھی ساتھ تھے۔ جوبائیڈن اور افغان رہنمائوں نے امریکی انخلا اور اس کے بعد کی صورتحال پر بات چیت کی۔ اشرف غنی نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کا 1861 میں امریکا کو درپیش صورتحال سے موازنہ کیا جب ابراہام لنکن خانہ جنگی روکنے کے لیے واشنگٹن آئے تھے۔ اشرف غنی نے کہا کہ افغانستان کی بھی ایسی ہی اپروچ ہے، امریکا کی جانب سے افغانستان کو اس کے حال پرچھوڑنے سے متعلق بیانیہ غلط ہے، باہمی مفادات کے لیے امریکا کے ساتھ نئی جامع پارٹنر شپ کا آغاز ہورہا ہے، اتحاد، آہنگی اور قومی مفادمیں قربانیوں کیلئے تیارہیں۔ دونوں افغان لیڈروں نے امریکی وزیردفاع لائیڈ آسٹن سے بھی ملاقات کی۔ میڈیا کے اس سوال پر کہ طالبان 6 ماہ میں کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں، افغان صدر مسکرائے اور کہا کہ ایسی کئی پیش گوئیاں پہلے بھی غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ اس موقع پر لائیڈ آسٹن نے کہا کہ امریکی حکومت افغان سکیورٹی فورس کو دفاعی امور میں تعاون کے عزم پر قائم ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ انخلا کے بعد افغانستان اور افغان فورسز سے نیا تعلق قائم ہوگا۔ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ کابل میں سفارتخانے کے تحفظ کیلئے 650 امریکی فوجی موجود رہیں گے۔ علاوہ ازیں افغان صدر امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی سے بھی ملے جب کہ سینٹ میں اقلیتی پارٹی کے لیڈر مچ میکونیل نے پالیسی میں تبدیلی کامطالبہ کیا اورکہا کہ انخلا کامطلب افغان شراکت داروں کو خطرات سے نمٹنے کے لیے تنہا چھوڑنے کے مترادف ہے۔ امریکی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں سرکاری افواج کو معاونت پیش کرنے کے سلسلے میں اس کی فضائی کارروائیاں جاری ہیں۔ انہوں نے بیان میں مزید کہا کہ افغانستان سے امریکی سرزمین کیلئے کسی بھی خطرے کی صورت میں واشنگٹن واپس آکر اس خطرے کے ذرائع کو نشانہ بنانے پر مجبور ہو جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ افغانستان کو ایک بار پھر دہشت گردوں کا گڑھ بننے سے روکا جائے۔ امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ واشنگٹن اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ طالبان، افغانستان میں تنازعہ کے خاتمے کے لئے سنجیدہ ہیں یا نہیں جبکہ طاقت کے زور پر ملک پر دوبارہ قبضے کی کوشش امن کوششوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق پیرس کا دورہ کرنے والے انٹونی بلنکن نے اعتراف کیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن، افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سابق سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان واشنگٹن میں طے شدہ ملاقات سے قبل افغان سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران انٹونی بلنکن نے کہا کہ ہم افغانستان میں سکیورٹی صورتحال بہت غور سے دیکھ رہے ہیں اور اس بات کو بھی بغور دیکھ رہے ہیں کہ کیا طالبان، تنازعہ کے پرامن حل کے لیے سنجیدہ ہیں۔ خبررساں ادارے کے مطابق افغان صدر نے امریکی صدر کی یقین دہانی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدر جوبائیڈن کے امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلاء کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے امریکیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ صدر جوبائیڈن نے افغان صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن افغانستان کے رہنماؤں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔ افغانستان میں تشدد کو ہر صورت ختم ہونا چاہئے۔