حکومت کے لے سب کچھ ، عوام کے لیے کچھ نہیں

ضیاء  الرحمن ضیاء
 چند روز ْقبل سینیٹ میں ایک بل منظور ہوا جس کے مطابق موجودہ اور گزشتہ سینیٹ کے تمام چیئر مینوں کوتاحیات بارہ بارہ ملازمین اور کئی گاڑیاںدینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس پر مزید ظلم یہ کہ صرف چیئرمینوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی کئی گاڑیاں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی کئی بل اس قسم کے پیش ہوتے رہے جن میں حکومتی سربراہان اور عہدیداروں کو بہت سی مراعات دی جاتی رہی ہیں پنجاب اسمبلی میں بھی گزشتہ دورِ حکومت میں بل پاس ہوا تھا جس میں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا تھا۔ اس میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جب اس قسم کے بل پیش ہوتے ہیں جن میں اراکین اسمبلی یا وزرائ￿ وغیرہ کو مراعات دی جاتی ہیں تو ان میں کسی قسم کا اختلاف بھی نہیں ہوتا اس میں حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر آ جاتے ہیں اگر یہی بات عوام کے حق میں ہو اور بل عوام کے فائدے کے لئے پیش کیا جائے تو اس میں کئی طرح کے اعتراضات لگ جاتے ہیں اور کئی طرح کے اختلافات سامنے آ جاتے ہیں کئی طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
 عوامی فائدے کا بل اگر حکومت کی طرف سے بل پیش ہوتو اپوزیشن اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے اوراپوزیشن کی طرف سے ہوتو حکومت اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے اگر کوئی اور نہ روکے تو صدر مملکت موخر کرنے کی کوشش کرتے ہیں عوام کے فائدے یا عوام کو مراعات دینے کے بلوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے اور اکثر کوشش ہوتی ہے کہ وہ بل نہ ہی پاس ہوں لیکن جب یہ بل حکومت یا اراکین اسمبلی کے فائدے کے لئے بنائے جائیں تو ان میں کسی قسم کا بھی اختلاف سامنے نہیں آتا اور یہ بل فورا ہی اتفاق رائے سے منظور ہو جاتے ہیں۔
 ایک ایسا ملک جس میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ہر طرف مہنگائی کا رونا رویا جارہا ہے ،عوام پریشان ہیں ،بیروزگاری آسمان کو چھو رہی ہے، لوگوں کے کو کھانے پینے اور بنیادی ضرورت کی اشیائ￿ خریدنے تک میں مشکلات کا سامنا ہے ، لوگ بنیادی ضرورت کی اشیائ￿ سے محروم ہیں ، لوڈشیڈنگ اور دیگر کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حکومت کے خزانے میںرقم نہیں ہے حکومت بہت غریب ہے ،ملک دیوالیہ ہو رہا ہے، آئی ایم ایف قرض نہیں دے رہا، ملکی خزانہ روزبروز خالی ہو رہا ہے جسے بھرنے کے لیے عوام پر بھاری ٹیکس عائد کئے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود خزانہ بھرنے میں نہیں آرہا۔ 
 دوسری طرف دیکھا جائے تو حکومت کے پاس حکمرانوں کو دینے کے لیے ملک کے خزانے میں بہت کچھ ہوتا ہے ، جب سرکاری عہدیداروں کو نوازنے کا وقت آتا ہے تو تب کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ خزانہ خالی ہے نہیں دے سکتے بلکہ وہاں بہت کچھ ہوتا ہے بڑے بڑے پروٹوکول دیے جاتے ہیں ملازمین سکیورٹی گارڈ گاڑیاں یہ سب کچھ ان کے لئے پیدا ہو جاتا ہے۔ حج کرنے کے لیے بھی پچاس افراد کے ساتھ خصوصی طیاروں میں جا سکتے ہیں اسی طرح اپنی گھر والوں کے لیے بھی گاڑیاں رکھ سکتے ہیں ، اہل خانہ کے لئے بھی ملازمین دستیاب ہوتے ہیں لیکن عوام کو بنیادی ضرورت کی اشیائ￿ بھی نہیں دے سکتے کیوں کہ خزانہ خالی ہے جب ان کا اپنا وقت آتا ہے تو خزانہ بھر جاتا ہے تب نہیں روتے کہ خزانہ خالی ہے لیکن عوام کو دیتے ہوئے خزانہ خالی ہو جاتا ہے۔
 آئی ایم ایف بھی بہت سیانا ہے کہ وہ ہمیشہ عوام پر ٹیکس عائد کرنے کی بات کرتا ہے عوام پر بوجھ لادنے کی بات کرتا ہے مہنگائی کرنے کی بات کرتا ہے لیکن وہ یہ نہیں کہتا کہ سرکاری عہدیداران اور حکومت کے اخراجات میں بھی کمی لائی جائے ، اس قسم کا ایک آدھ بیان آئی ایم ایف کی طرف سے جاری ہوا تھا لیکن اس پر اس طرح زور نہیں دیا گیا جس طرح عوام پر ٹیکس لگانے کے لیے زور دیا جاتا ہے۔ سرکاری عہدیداران اور حکومت اپنے لئے جتنا چاہے خزانے کو لوٹتے رہیں وہاں سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا نہ آئی ایم ایف نہ کسی اور ادارے کو لیکن جب عوام کو کچھ کسی سے چھوٹ دے دی جائے تو ایک دم سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھیں پھٹنے لگتی ہیں کہ عوام کے ساتھ نرمی کیوں کی جارہی ہے عوام پر بوجھ کیوں نہیں لادا جا رہا۔
 عوام کے ساتھ ہمیشہ یہی ظلم ہوتا رہا ہے کہ عوام سے ٹیکس لے کر امراء اور وزراء  کو نوازا جاتا رہا ہے عوامی ٹیکسوں پر حکومتیں مزے لوٹتی رہی ہیں اور اس میں کوئی حکومت بھی دوسری سے مختلف نہیں ہے تمام کا رویہ یکساں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام پر بھاری بھر کم ٹیکس عائد کرنے کے باوجود ملکی خزانہ بھرنے میں نہیں آرہا بلکہ ٹیکس جتنے زیادہ لگائے جاتے ہیں خزانہ اسی قدر خالی ہوتا جاتا ہے کیونکہ حکومت نے حکومتی عہدیداروں اور سرکاری افسروں کے لیے مراعات ہی اس قدر رکھی ہیں کہ اربوں روپے تو وہاں خرچ ہو جاتے ہیں تو عوام کے لیے اس میں سے کیا بچے گا؟ عوام سے ٹیکس لے کر حکومتی عہدیداران عاشیاں کرتے ہیں اور عوام کے لیے آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے ہیں۔ جو عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے اور اس میں تمام سیاسی جماعتیں ملوث ہیں۔

ای پیپر دی نیشن