کسی کو رزق کی بہتات اورکسی کو تلاش کھا گئی!

گلوبل ویلج:مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
یہ زندگی کا المیہ ہے کہ کچھ لوگ زرق کی بہتات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے اور کچھ لوگ رزق کی تلاش میں۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے بڑے ممالک میں احمد دا?د کا بڑا نام ہے، ان بڑا کاروبار ہے، اینگرو کیمیکلز، ہرکولیس ،لارنس پوراس طرح کی انڈسٹریز کے مالک ہیں۔وہ تو فوت ہوچکے انکے بزنس سٹیٹ کے مال شہزادہ دا?د تھے۔پاکستان کے چند ایک امیر ترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ یہ ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے والے سیاحوں کے ساتھ ٹائیٹن آبدوزمیں سفر کرتے ہیں۔ ٹائیٹن کینیڈا میں فا?نڈ لینڈ سے چلتی ہے، چھ سو میل سیدھا سفر کرتی ہے، اس کے بعد اس نے نیچے چار کلومیٹر تک جانا ہوتا ہے۔ اڑتیس سو میٹر نیچے۔چھ سو ساٹھ فٹ سمندر کے پانی میں جائیں تو اندھیر گھپ ہو جاتا ہے۔ عام آبدوزیں سطح سمندر سے نیچے زیادہ سے زیادہ پانچ سو میٹر تک جاتی ہیں لیکن یہ ٹائیٹن ، ٹائی ٹینک کا اڑتیس سو میٹر نیچے پڑے ملبے کو دیکھنے کے لیے سیاح جاتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ 2021ئ￿ میں اوشین گیٹ کمپنی کی طرف سے شروع کیا گیا۔ ایک ہی بوٹ اس مقصد کے لیے ’’ٹائیٹن‘‘ کے نام سے بنائی گئی۔ اس کی ٹکٹ کی قیمت ایک ملین ڈالر جو پاکستانی روپوں میں تیس کروڑ بنتے ہیں وہ رکھی گئی ہے۔ شہزادہ دا?د اور ان کے بیٹے سلمان دا?د بھی اس بوٹ میں سوار تھے۔
یہ بوٹ گیارہ بجے چلتی ہے، شام کو چھ بجے اس نے واپس سمندر کی سطح پر نمودار ہوناتھا۔ لیکن بدقسمتی سے صرف پونے دو گھنٹے بعد اس کا رابطہ باہر سے ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد پھر نہیں پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ چوتھے روز جا کر روبوٹس کے ذریعے پتا چلتا ہے کہ اس کا ملبہ ٹائی ٹن کے قریب ہی آدھے پونے کلومیٹر پر پڑا ہوا ہے۔ ملبے میں ایک تو اس کا آفٹ سیکشن ہے پچھے والا حصہ اور اس کا لینڈنگ فریم۔
جس میں وہ لوگ تھے کیپسول اس کو کہہ لیں یا خول یا ڈھانچہ کہہ لیں اس کا کچھ پتا نہیں چلا۔ امریکن کوسٹ گارڈ اور اس کمپنی کی انتظامیہ کی طرف سے کہہ جا رہا ہے کہ یہ بوٹ راستے میں کہیں پھٹ گئی اوراس کا فریم اور اس کا پچھلا حصہ نیچے چلا گیا۔ان لوگوں کی میتیں کہاں ہیں۔اس بارے میں کچھ بھی ابھی تک نہیں کہا گیا۔
 یہ ایک ایڈونچر ہے جو لوگ ایڈونچرازم کا شوق رکھتے ہیں وہی ایسا کچھ کرتے ہیں۔ پھر شوق تو بہت سے لوگ رکھتے ہیں لیکن وہاں تک وہ ہی جا سکتا ہے جس کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہو۔ ایک بندے کے پاس کم از کم تیس کروڑ روپیہ ہو۔ باپ بیٹا گئے تو انہوں نے ساٹھ کروڑ روپے ادا کیے۔ اسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس پیسے کی بہتا ت ہے وہی ایسا شوق پال سکتے ہیں۔ اگر اللہ تعالی نے کسی کو اتنا پیسا دیاہے تو پھر ایسے شوق کی بجاآوری کوئی جرم نہیں ہے۔ہو سکتا ہے کہ اپنی زندگیوں میں وہ اللہ کی راہ پر کتنا زیادہ خرچ کرتے ہوں۔  اللہ تعالی ان دو کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے ساتھ باقی تین کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔ 
ایک طرف یہ ہوتا ہے کہ دولت کی بہتات کی وجہ سے لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور دوسری طرف پاکستانیوں کی کشتی قبرص کے قریب یونان کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے،ڈوب کیا جاتی ہے، الٹ جاتی ہے۔اس میں تین سو سے زائد پاکستانی رزقِ سمندر بن جاتے ہیں۔ یہ تین سو سے زائد لوگ روٹی کی تلاش میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ ان میں سے کسی کے والدین نے گھر کے زیورات بیچے ،جائیدادیں بیچیں،کاروبار بیچے ،ادھار اٹھائے صرف اس لیے کہ زندگی میں تھوڑی سی بہتری آ جائے، زندگی آرام سے بسر ہونے لگے لیکن ان کو کیا پتا کہ یہ اپنے پیاروں کے لیے موت خرید رہے ہیں۔
 یہ بھی دیکھا گیا کہ پانچ لوگوں کو بچانے کے لیے پوری دنیا آپریشن میں حصہ لیتی ہے، ان کو تلاش کرتی ہے۔ امریکہ کے جہاز، کینیڈا کے جہاز،برطانیہ، فرانس کے ماہر اور آلات سارا کچھ استعمال کیا جاتا ہے۔اس جگہ پر بیس ہزار کلومیٹر سکوائرکا چپہ چپہ چھان مارا جاتا ہے۔ ان کی تلاش میں پوری دنیا جت جاتی ہے لیکن ادھر المیہ یہ ہے کہ تین سو لوگ ڈوب رہے ہیں، مر رہے ہیں ان کے پاس نہ کچھ کھانے کو ہے نہ پینے کو ہے۔ساحل کے قریب ان کا جہاز کھڑا ہے ،ساحل پر یونان کی انتظامیہ ،کوسٹ گارڈ کے لوگ سارا کچھ دیکھ رہے ہیں، ان کی مدد کو نہیں پہنچتے۔لیکن ان لوگوں کی کسی قسم کی کہیں سے بھی مدد نہیں کی گئی۔ لاوارثوں کی طرح، لاچاروں کی طرح یہ لوگ سمندر کا رزق بن گئے۔ اس کشتی یا جہاز میں جو الٹ گیا اس میں ساڑھے سات سو لوگ سوار تھے ،ان میں سے چار سو پاکستانی تھے۔
بہت بڑا سوال ہے کہ اتنے پاکستانی غیرقانونی طور پر پاکستان سے گئے ہیں۔ افغانستان کا، ایران کا ،ترکی کا اور دیگر ممالک کا یہ لوگ بارڈر کراس کرتے رہے۔ یہاں سے یہ لیبیا میں جا پہنچے، یہاں سے ان کا جہاز اٹلی جانا تھا۔ راستے میں قبرص کے مقام پر یہ موت کی وادی میں اتر گئے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا آج تک پاکستان سے جانے والے ایسے لوگ جو غیر قانونی طور پر جا رہے تھے اور موت کا شکار ہوگئے ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔کتنے ہوں گے جو وہاں تک پہنچے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ قانون کا کھلواڑ ہے، اداروں کی نااہلی ہے۔کیسے انسانی سمگلر پاکستان میں بیٹھ کر ایسا دھندا کر رہے ہیں۔ اْدھر یہ جہاز ڈوبتا ہے ابھی ان کی میتیں گھروں تک نہیں پہنچیں ،ادھر پھر انسانی سمگلر اپنا کام شروع کر دیتے ہیں، اسی طرح اشتہارات دیئے جاتے ہیں ،اسی طریقے سے لوگوں کو پھر پھنسانے کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔جن لوگوں نے ان لوگوں کو وہاں تک پہنچانے کی کوشش کی ان سے لاکھوں کروڑوں روپے وصول کیے۔انسانی سمگلر آج سختیوں کا سامنا کر رہے ہوں گے لیکن کب تک ؟ان کو بھی چند دنوں میں رہائی مل جائے گی کیونکہ یہ مافیا بڑا طاقتور ہے اور پھر سے وہ یہ سلسلہ شروع کر دیں گے۔
کسی دور میں بے روزگار لوگ پاکستان سے باہر جایا کرتے تھے لیکن اب صوت حال یہ ہو گئی ہے کہ صرف ان تیرہ چودہ مہینوں میں جب سے نئی حکومت آئی ہے، پاکستان سے بیرون ملک جانے والے صرف پروفیشنل کی تعداد نو لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے۔نو لاکھ تو حکومتی ادادوشمار ہے ان کی اصل میں تعداد پندرہ لاکھ سے کم نہیں ہو گی۔ ایک تو ہمیں اپنے آپ کو درست کرنا ہے، پاکستان میں ایسے مواقع فراہم کرنے ہیں کہ کم از کم جو ماہر ہیں، جو پروفیشنل ہیں وہ تو پاکستان سے باہر نہ جائیں تو باقیوں کے روزگار کا بھی بندوبست کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ سب سے زیادہ جس کی ضرورت ہے وہ ان لوگوں کے گرد شکنجہ حقیقی طور پر کسنا ہے جو انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ نظر یہی آتا ہے کہ کل کلاں یہ بھی گٹھ جوڑ کرکے، میل ملاپ کرکے قانون کے ہاتھوں سے بچ نکلیں گے اور پھر سے یہی دھندا شروع کر دیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...