کالم:لفظوں کا پیرہن تحریر:غلام شبیر عاصم
میرا بچپنا تھا،جب میری ماں جی کو پاگل آوارہ کْتے نے کاٹ لیا.ایک بار انہیں خون کی قے (اْلٹیاں) بھی آئی تھیں، اور وہ مسلسل کئی ہفتے بسترِ مرض پر رہیں۔میں ماں جی کی چارپائی کی طرف بڑھتا تو میری ماں جی مجھے چارپائی سے دْور رکھنے کے لئے میری دادی یا گھر کے کسی دوسرے فرد کو کہتیں۔ماں سے لپٹ کر جنت کا سرور پانے کی تڑپ میرے اندر ہی سسکیاں بھرتی سنبھل جاتی جیسے کوئی بچہ روتے روتے سوجائے۔یہ ماں کی مجھ سے نفرت نہیں تھی،محبت تھی،احتیاط تھی،ماں کی ممتا کی عملی شکل تھی۔ماں جی خیال کرتی تھیں کہ وہ بیمار ہے بیماری کے اثرات اس پر نہ آجائیں۔گاوں فتوکے کے ریٹائرڈ فوجی ڈاکٹر نصراللہ کی درست تشخیص اور مسلسل علاج کی بدولت میری ماں جی ہفتوں بعد بستر مرض سے اتریں تو میری خوشی کی انتہا ہوگئی،گویا میری خوشی کی بھی آنکھوں میں آنسووں کے موتی چمکنے اور ستارے ٹمٹمانے لگے۔بیماری تھی آئی اور امرِ ربی سے چلی بھی گئی۔مگر بچپن سے میری جوانی اور اپنے بڑھاپے تک بلکہ تا حیات ماں جی نے احتیاطا?? ہم بہن بھائیوں کو کبھی اپنے برتن میں کھانے پینے نہیں دیا تھا۔گویا ماں جی نے"ممتا"کا عملی ثبوت پیش کردیا۔شاید وہ خیال کرتی تھیں خون کی قے کا سبب اور پاگل کْتے کے کاٹنے کا زہر ہمیشہ ان کے اندر باقی رہا۔دراصل خون کی قے اور کْتے کے زہر کی بات یا احتیاط نہیں تھی،ماں جی کو ہمارا کسی موروثی مرض میں مبتلا ہوجانے کا خوف تھا جو ماں جی کے دل و دماغ میں شیش ناگ بن کر بیٹھ گیا تھا۔مگر ماں جی نے زندگی بھر سپیرے کی طرح خوف کے اس شیش ناگ پر پہرا جما کررکھا حتٰی کہ ایک روز امرِ ربی سے تیرِ اجل کی شکار ہوگئیں مگر جیتے جی اس احتیاط میں انہوں نے کمی نہ آنے دی۔آج بھی جب کبھی انکی ترسی ہوئی روح میرے وجود کو باہوں میں بھینچ لیتی ہے تو آنسو میرے اندر سے پلکوں پر ایسے آجاتے ہیں،جیسے مشکیزے کو دبانے سے پانی رسنے ٹپکنے لگتا ہے۔ماں کے ہجر کے لق و دق صحرا میں ایسے کئی مشکیزہ نما وجود ہیں جن سے پانی ٹپکنے لگتا ہے۔ہر کسی کی ماں اولاد کو کسی بھی تکلیف سے بچانے کے لئے اسی طرح عمر بھر احتیاط کا فریضہ ادا کرتی رہتی ہے۔ماں منزلِ عدن تک پہچ گئی ہو تو پھر تصور بھی نمناک سا ہوجاتا ہے۔ماں ایک ساجھا اور آفاقی سا رشتہ ہے۔جسے دنیا و مافیہا کے اونچ نیچ کی خبر نہیں وہ بھی ماں کو خدا کا روپ کہتا ہے۔ماں ایک مقدس رشتے اور اطمینان سے ماخوذ سچے احساس کا نام ہے۔نْکتے کی بات ہے کہ ایک نقطہ کا فرق ہے،ماں"مان" اور بھروسے کی دوسری شکل ہے۔ماں مرجائے یا ناراض ہوجائے تو مان اور بھروسے کو بھی موت آجاتی ہے۔اس عظیم اور مقدس رشتے کے تقدس کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کے لئے عالمی سطح پر"مدر ڈے"بھی منایا جاتا۔قرآن وحدیث کی روشنی میں اس رشتے کی عظمت کی پہچان کرائی گئی ہے۔ہمار مذہب اسلام نے کہا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔گزشتہ دنوں مریدکے شہر میں سماجی تنظیم"فرینڈز آف مریدکے" اور "ارشد شریف شہید پریس کلب مریدکے"نے بڑے اہتمام سے"ماواں ٹھنڈیاں چھاواں" کے عنوان سے ایک عظیم الشان تقریب کا اہتمام کیا۔اس تقریب کے روح رواں سینئر صحافی کرامت علی بھٹی تھے۔جو اس طرح کی تقاریب کا اکثر اہتمام کرتے رہتے ہیں۔"فرینڈز آف مریدکے" تنظیم بھی انہی کی پیداوار ہے۔اس تقریب میں بیسیوں معززین علاقہ نے شرکت کی۔شرکائ نے تمام ماوں کی ارواح کو ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کی،اسٹیج پر مختلف علمائ و صاحبان علم و معرفت نے ماں کی عظمت بارے اظہار خیال کیا۔اس موقع پر تعمیری،اصلاحی اور سماجی خدمات میں اہم کردار ادا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے"ماں صدقے ایوارڈ" بھی دئیے گئے۔میری دعا ہے کہ تمام مائیں زندہ و سلامت رہیں جو عالمِ ارواح میں چلی گئی ہیں اللہ پاک روزِ محشر وجہ تخلیقِ کائنات حضرت محمد? کی ماں پاک کی صحبت انہیں نصیب کرے،خاتونِ جنت حضرت بی بی فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیہا کی کنیزوں میں شمار ہوں۔اللہ پاک ہماری دھرتی ماں کو بھی"ٹھنڈی چھاوں"اور امن و آشتی کی فضا سے ہمکنار کرے۔
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
Jun 27, 2023