بھارتی مظالم کی تجربہ گاہ اور مودی کا دورہ امریکہ

اصغر علی شاد:امراجالا
ایک جانب مودی کے دورہ امریکہ کے فورا بعد بائیڈن انتظامیہ نے عملی طور پر بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چشم پوشی کرتے ہوئے مشترکہ اعلامیے میں جس طور مودی کو عملی طور پر کلین چٹ دی اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔دوسری طرف بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کیخلاف بھارت کی ریاستی دہشتگردی پوری شدت سے جاری ہے جس کا اعتراف 23جون کو محبوبہ مفتی نے پٹنہ میں ان الفاظ میں کیاکہ بھارت نے پہلے کشمیر کو اپنی دہشتگردی کی تجربہ گاہ بنایا اور اب اس کا دائرہ پورے بھارت تک وسیع کر دیا گیا۔ مبصرین کے مطابق اسی تناظر میں کون واقف نہیں کہ بھارت کے طول و عرض میں سبھی مذہبی اقلیتوں کی دل آزاری کرنا ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔اسی ضمن میں مذہبی عبادت گاہوں کی بے حرمتی مودی کے دور حکومت میں ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ 1991 میں ہندوستانی حکومت نے عبادت گاہوں کا ایکٹ (1991) پاس کیا جس کے مطابق  ''مسجد، مندر، چرچ یا کوئی اور عبادت گاہ ایک ہی مذہب کو برقرار رکھے گی اور عبادت گاہ کا وہی مذہب رہے گا جو 15 اگست 1947 کو تھا۔  1990 کی دہائی کے اوائل سے، بی جے پی/آر ایس ایس نے بڑے پیمانے پر ہندو او رمسلمانوں کے مابین اختلافات کا استعمال کیا اور ساتھ ساتھ سیاسی مصلحت کے لیے اور بڑے طبقوں کو متحرک کرنے کے لیے ہندو قوم پرستی کا کارڈ استعمال کیا۔  6ستمبر1992 کو بابری مسجد کی شہادت نے بھارت میں سیکولر سوچ کو مزید کمزور کیا۔ ایسے ہی گجرات فسادات (2002) کے دوران مسلمانوں کے قتل عام نے اس بات کو ثابت کیاکہ بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہیں قطعاً محفوظ نہیں۔
یاد رہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے اس سارے عمل کو انتہائی منظم ڈھنگ سے انجام دینے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ اس ضمن میں جنونی ہندوو گروہوں کے طریقہ واردات سے آگاہی ضروری ہے جو کچھ یوں ہے کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نفسیاتی اذیت اور تذلیل کا نشانہ بنانے کے لیے ایک تاریخی یا نمایاں مسجد کو ہدف کے طور پر منتخب کیا جاتا ہے اورپھر ہندو انتہا پسند خود کو مورخ یا ماہر آثار قدیمہ یا مذہبی اسکالر کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے مذکورہ مسجد کی تاریخ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں اور اسے صدیوں پہلے ہندو مندر کی تباہی سے جوڑتے ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں خاص طور پر سنگ پریوار (آر ایس ایس سے وابستہ) نشانہ بنائی گئی مسجد کے خلاف میڈیا مہم شروع کر دیتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے ہندو قوم پرستی اور فرقہ پرستی کو ہندو سماج کے طبقات کو بھڑکانے اور اکسانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر مسجد کے بارے میں تنازعہ کو قانونی چارہ جوئی شروع کرکے اور آثار قدیمہ کے سروے کا مطالبہ کرکے قومی یا ریاستی سطح پر لایا جاتا ہے۔ ہندتوا دباؤ کے تحت، عدالتیں ''عبادت کے مقامات ایکٹ - 1991'' میں واضح قانونی پوزیشن کے باوجود ایسی درخواستوں کو مسترد کرنے سے گریز کرتی ہیں۔یاد رہے کہ RSS/BJP یا دیگر ہندو انتہا پسند تنظیمیں قومی اور ریاستی سطح پر انتخابی فوائد کے لیے مسجداورمندر کے تنازعوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور زیادہ تر مسجداور مندر تنازعے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات، مسجد کو مسمار کر کے اس کی جگہ مندر بنا دیا جاتا ہے اور یوں مسلم کمیونٹی کو زندگی اور ایمان کے دائمی خوف میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔یہاں اس امر کا تکذکرہ انتہائی ضروری ہے کہ نفرت انگیز جرائم کسی فرد یا برادری کے خلاف نسل، ذات یا مذہب کی شناخت کی بنیاد پر تعصب کی وجہ سے کیے جاتے ہیں۔ اس میں کسی فرد یا کسی خاص سماجی گروہ کو ہراساں کرنا اور تشدد کرنا  شامل ہیں جو سماجی ہم آہنگی کو متاثر کرتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم نہ صرف مسلمانوں کے خلاف تعصب کی وجہ سے ہوتے ہیں بلکہ اکثر اقلیتوں کے خلاف انتہائ￿  ہندو برادری میں پائی جانے والی نفرت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔اس تمام صورتحال کے پس منظر اور پیش منظر کا جائزہ لیں تو یہ امر بخوبی واضح ہو جا تا ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے اوراقلیتوں کے خلاف نفرت کے ان جذبات کو ہندو قوم پرستی کے پرچار سے پروان چڑھایا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کی جانب سے اس تعصب کو ہوا دی گئی ہے کہ ہندوستان بنیادی طور پر ایک ہندو ملک ہے اور اس پرحق صرف ہندوؤں کا ہے۔ دیگر مذاہب جیسا کہ اسلام اور عیسائیت غیر ہندوستانی ہیں، اس لیے وہ ہندوستان کے  حقدار نہیں ہیں۔ یہ امر قابل تشویش ہے کہ یہ تعصبات متاثرہ کمیونٹی کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد کی کارروائیوں کا باعث بن رہے ہیں۔ اسی طرح، نفرت انگیز تقاریر مواصلات کی ایک ایسی شکل ہیں جو خوف، نفرت اور ناخوشگوار ماحول پیدا کرتی ہیں۔ مبصرین کے مطابق  متعلقہ قوانین کی موجودگی کے باوجود بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں اور تحریریں عروج پر ہیں اور ساتھ ہی بی جے پی نے آہستہ آہستہ ان قوانین کو انتظامی اقدامات سے غیر موثر بنا دیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہندوتوا تنظیموں بالخصوص آر ایس ایس اور اس کے حواریوں کی پروپیگنڈہ مہمات کی وجہ سے بھارتی عدالتیں بھی ان کے زیر اثر آتی جا رہی ہیں۔یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ سوشل میڈیا پر بھارتی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں جو ہمیشہ نفرت انگیز جرائم کا باعث بنتی ہیں۔یاد رہے کہ  2021 میں بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے 294 واقعات ہوئے اور  بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ نفرت انگیز جرائم کیے گئے ہیں۔یہاں یہ امر قابل توجہ کا حامل ہے کہ کرونا کی وبا کے دوران جس طور بھارت بھر میں تبلیغی جماعت کے خلاف زہر افشانی کی گئی اور اس ضمن میں طرح طرح کے افسانے تراشے گئے اس سے بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کی مزید دل آزاری ہوئی اور یہ مکروہ سلسلہ اب بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا جس کے نتیجے میں بھارت کا پورا سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پورا جنوبی ایشیائ￿  بھارت کی انتہائ￿  پسندانہ ذہنیت کی وجہ سے مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن