مجلسِ شْوریٰ میں رچایا "جمہوری تماشہ"

1980کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی جب امریکہ کے نومنتخب صدر ریگن اور ہمارے ان دنوں کے صدر اور چیف مارشل لاء  ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے مابین افغانستان کو ’’جہاد‘‘ کے ذریعے کمیونسٹ روس کی فوج سے آزاد کروانے کے لئے پنجابی محاورے والا ’’سٹ پنجا(معاہدہ)‘‘ ہوگیا تو چند منافقانہ فیصلے بھی لینا پڑے۔ دنیا کے روبرو خود کو ’’جمہوریت‘‘ کی حتمی علامت ثابت کرتے امریکہ نے جنرل ضیاء سے تقاضا کیا کہ وہ اپنی ’’آمرانہ‘‘ شناخت کو نرم بنائیں۔ کوئی ایسی جگاڑ لگائیں جو دنیا کو یہ تاثر دے کہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہوتے ہوئے بھی وہ فیصلہ سازی کے عمل میں ’’سویلین نمائندوں‘‘ سے مشاورت کرتے ہیں۔ ایسا بندوبست پاکستان میں نظر نہ آیا تو امریکی پارلیمان ’’افغان جہاد‘‘کے لئے امریکی سرمایے اور ہتھیاروں کی فراہمی میں رکاوٹیں کھڑی کرسکتی ہے۔
جنرل صاحب نے مذکورہ تجویز پر فی الفورآمناََ وصدقناََ کہا۔ بقول ان کے کئی لوگوں کے ’’شجرے‘‘ دیکھ کر ’’معزز شہریوں‘‘ پر مشتمل ایک ’’مجلس شوریٰ‘‘ قائم کردی۔ نامزد اراکین پر مشتمل یہ ادارہ خود کو اکثر ’’آزادمنش‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کی طرح اس کے ہر اجلاس کا آغاز وقفہ سوالات سے ہوتا۔ اس کے دوران بساواوقات کئی وزراء کو تندوتیز تنقید بھی برداشت کرنا پڑتی۔مجلس شوریٰ چند امور کے بارے میں نئے قوانین بنانے کا اختیار بھی رکھتی تھی۔ اسے استعمال کرتے ہوئے قانون شہادت کو ’’اسلامی‘‘ بنانے کا فیصلہ بھی ہوا۔ بات چل نکلی تو چودھری الطاف حسین جیسے افراد نے عورت کی گواہی ’’آدھی‘‘ قرار دینے پر سوالات اٹھادئے۔ جو سوال اٹھے انہوں نے ملک بھر میں مناظرے کی فضا کئی مہینوں تک برقرار رکھی۔ خواتین کے حقوق کے نام پر ’’ویمن ایکشن فورم‘‘ کا قیام بھی اس کے تناظر میں ہوا تھا۔
’’مجلس شوریٰ‘‘سے جڑی اور بھی کئی کہانیاں ہیں۔ فی الوقت ان کا ذکر ضروری نہیں۔عرض فقط یہ کرنا ہے کہ مذکورہ ’’مجلس‘‘ کی یاد مجھے اتوار کے دن شہباز حکومت کا دوسرا بجٹ پاس ہونے کے مراحل کے دوران شدت سے تنگ کرتی رہی۔اصرار یہ بھی کرنا ہے کہ ’’نامزد‘‘ ہونے کے باوجود ’’مجلس شوریٰ‘‘ میں رچایا ’’جمہوری تماشہ‘‘ آج کی ’’منتخب‘‘ قومی اسمبلی کی کارروائی کے مقابلے میں کہیں زیادہ جاندار اور کبھی کبھار‘‘ سچ مچ والا‘‘ محسوس ہوتا تھا۔
قومی اسمبلی کی بنیادی ذمہ داری سالانہ بجٹ کی سنجیدہ چھان بین ہے۔یہ فریضہ ’’اپوزیشن‘‘ سرانجام دیتی ہے۔بجٹ تجاویز پر ہوئی عام بحث کے دوران اصولی طورپر اس کے اراکین کی جانب سے ہوئی تقاریر ہم عامیوں کو سمجھاتی ہیں کہ میری اور آپ کی زندگی مزید اجیرن بنانے کے لئے حکومت نے عوام کو خوشحال بنانے کے نام پر کیا وارداتیں ڈالی ہیں۔نواز شریف کی دونوں حکومتوں کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو یہ فریضہ نہایت لگن سے سرانجام دیتی رہیں۔ 1997کے انتخاب کے بعد وہ فقط 18نشستوں کے ساتھ ایوان میں آئی تھیں۔ اس کے باوجود بطور اپوزیشن لیڈر انہوں نے ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ آئی حکومت کو پارلیمان میں اکثر زچ کئے رکھا۔
تحریک انصاف کے ’’منحرف‘‘ کہلاتے اراکین ان دنوں کی اپوزیشن ہیں۔ان کی تعداد 25کے قریب ہے۔راجہ ریاض قائد حزب اختلاف ہیں۔اس کے علاوہ نور عالم بھی ہیں جو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ہوتے ہوئے مالیاتی قضیوں سے خوب واقف ہیں۔قائد حزب اختلاف سمیت ’’اپوزیشن‘‘ بنچوں سے کسی ایک شخص نے بھی لیکن ایسی تقریر نہیں فرمائی جو وزارت خزانہ کے تیار کردہ بجٹ کے بارے میں چونکا دینے والے پہلو آشکار کرتی۔ 9جون کو جو بجٹ قومی اسمبلی کے روبرو رکھا گیا وہ عندیہ دے رہا تھا کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے لگائی امیدیں کھوبیٹھی ہے۔ بجٹ پیش ہوتے ہی آئی ایم ایف کی اسلام آباد میں تعینات نمائندہ نے واضح الفاظ میں اس کے بارے میں ’’مایوسی‘‘ کا اظہار کردیا۔تاثر یہ بھی دیا کہ پاکستان نے اپنی معاشی سمت ’’درست‘‘ کرنے کا موقعہ کھودیا ہے۔
بجٹ پر ہوئی عام بحث کے دوران کوئی ایک رکن اسمبلی بھی آئی ایم ایف کے غیر معمولی ردعمل کو مناسب انداز میں زیر بحث لانے میں ناکام رہا۔ دریں اثناء وزیر اعظم پاکستان نے آئی ایم ایف کی سربراہ اور ہیڈ کوارٹر سے براہ راست رابطے کی کاوشیں شروع کردیں۔بالآخر پیرس میں ان کی آئی ایم ایف کی سربراہ سے ایک تفصیلی ملاقات بھی ہوگئی۔ باقی دو ملاقاتیں باہمی سلام دعا سے زیادہ نہ تھیں۔ بہرحال جو ملاقات ہوئی اس کی بدولت ہماری وزارت خزانہ کے اہم ترین افسر تین دنوں تک آئی ایم ایف کے نما ئندوں سے رات گئے تک انٹرنیٹ کالز کے ذریعے رابطے میں رہے۔ ان کے نتیجے میں 9جون کے روز پیش ہوئے بجٹ میں بے تحاشہ تبدیلیاں لانے کا فیصلہ ہوا۔ ہفتے کے دن وزیر خزانہ نے ان کا محض سرسری تذکرہ کیا ہے۔معاشیات کی مبادیات سے لاعلم مجھ جاہل کو بھی اگرچہ سمجھ آگئی کہ آئی ایم ایف کو راضی کرنے کی خاطر 215ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جائیں گے۔ تنخواہ دار بدنصیب کو مزید ٹیکس دینا ہوگا۔ اس کے بعد جو ہوگا اس کا اندازہ ہم فقط اگلے چند ہفتوں میں بازار سے روزمرہّ ضرورت کی اشیاء خریدتے ہوئے ہی لگاسکیں گے۔ قومی اسمبلی میں بیٹھے ’’ہمارے نمائندوں‘‘ نے آئی ایم ایف کی خوشنودی کی خاطر لگائے نئے ٹیکسوں کی تفصیلات جاننے کا تقاضہ ہی نہیں کیا۔
بجٹ منظوری کا اہم ترین مرحلہ ’’کٹوتی کی تحاریک‘‘بھی ہوتی ہیں۔ ان کے ذریعے’’ہمارے نمائندے‘‘ حکومت کی دفاع ،خارجہ اور دیگر اہم امور کے بارے میں پالیسیوں کو زیر بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں۔تحریک انصاف کے ’’منحرف ‘‘ اراکین پر مشتمل ’’اپوزیشن‘‘ نے مذکورہ تحاریک متعارف کروانے کا تردد ہی نہیں کیا۔خود کو فقط بجٹ منظور کرنے کی حمایت میں ووٹ ڈالنے سے محفوظ رکھا۔ یہ فعل بھی مگر دکھاوا تھا۔ اس کے ذریعے کوئی سیاسی پیغام دینا مقصود نہیں تھا۔خود کو محض ’’لوٹا‘‘ پکارے جانے کی تہمت سے محفوظ رکھنا تھا۔
تحریک انصاف کے ’’منحرف‘‘ اراکین کے علاوہ سندھ سے ’’گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس‘‘ کے نمائندے بھی حکومتی بنچوں سے دور رہنے کے باوجود ’’اپوزیشن‘‘ کی پہچان اجاگر کرنے سے اکتراتے رہے۔ جماعت اسلامی کے مولانا چترالی ہی واحد رکن قومی اسمبلی رہے جو ’’اپوزیشن‘‘ دکھائی دیتے رہے۔ بجٹ اجلاس کی کارروائی کا کبھی کبھارمشاہدہ کرتے ہوئے اکثر مجھے یہ خیال بھی تنگ کرتا رہا کہ ہماری ’’منتخب پارلیمان‘‘ ویسی ہی مردہ ہوچکی ہے جیسے مصر یا شمالی کوریا جیسے ’’بندے دا پتر‘‘ بنے ممالک کی ’’پارلیمان‘‘نظر آتی ہیں۔ کاش میں اس کے برعکس سوچنے کو مجبور ہوتا۔

ای پیپر دی نیشن