حکومتی اعتراض پر جسٹس منصور الگ، بنچ پھر ٹوٹ گیا، 6رکنی نے سماعت کی

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔ حکومت کے اعتراض کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا۔ عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل سے فوج کی تحویل میں ایک سو دو افراد کی مکمل تفصیلات طلب کرلیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔ مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔ 7 رکنی بینچ کے سامنے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے سماعت کرنے والے لارجر بینچ پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتہ دار ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی مرضی اور خواہش پر بینچ نہیں بن سکتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کس بنیاد پر بینچ کے معزز رکن پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، میں نے پہلے ہی دن کہا تھا کسی کو بینچ پر اعتراض ہے تو بتا دیں۔ اٹارنی جنرل  نے کہا وفاقی حکومت کی ہدایت ہے کہ جسٹس منصور پر اعتراض اٹھایا جائے، میرا ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ میں نے پہلی سماعت پر پوچھا تھا کسی کو اعتراض ہے تو بتا دیں، اب بینچ پر اعتراض کس کی طرف سے اٹھایا گیا ہے۔ کوڈ آف کنڈکٹ کا آرٹیکل 4 بڑا واضح ہے، کیا اعتراض ہے کھل کر بتائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے رشتہ دار ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں بینچ سے خود کو الگ کرتا ہوں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ جس پر جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ میں اپنا کنڈکٹ اچھی طرح جانتا ہوں، کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے پھر میں کبھی اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا۔ وکیل حامد خان  نے کہا کہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے پہلے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، عدالت کے فیصلوں پر عمل اخلاقی ذمہ داری ہے اور ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کے لیے کوئی چھڑی نہیں البتہ بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن ان کی اخلاقی اتھارٹی کیا ہے۔ لوگ عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، بینچ میں شامل رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ جج صاحب خود کریں گے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مفادات کے ٹکراؤ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟، آپ ایک اچھے کردار اور اچھی ساکھ کے وکیل ہیں، ایک پوری سیریز ہے جس میں بینچ میں باربار اعتراض اٹھایا جارہا ہے، پہلے یہ بحث رہی کہ پنجاب الیکشن کا فیصلہ 3 ججوں کا تھا یا 4 کا، جواد ایس خواجہ ایک درویش انسان ہیں، آپ ایک مرتبہ پھر بینچ کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلباء سے مذاق میں ایک بات کہی تھی، انہوں نے کہا تھا کیس ہارنے لگو تو بینچ پر اعتراض کردو، وفاقی حکومت بھی اب یہی کر رہی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ کبھی کہا جاتا ہے بینچ درست نہیں بنایا گیا، اس سب پر ہم وزیراعظم سے پوچھیں؟۔ اگر ایسے الزامات حکومت لگائے گی تو کیا ہوگا، عدالت کو بدنام مت کریں۔ آپ بینچ کے ایک جج پر جانبداری کا الزام لگا رہے ہیں۔ کبھی آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں، آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا حکومت ایک مرتبہ پھر تناسب کے ایشو پر جانا چاہتی ہے؟، کس نے یہ نہیں کہا کہ 90 دنوں میں انتخابات آئینی تقاضا ہے، فیصلے پر اصولی طور کوئی اعتراض نہیں تناسب پر اعتراض اٹھایا گیا، موجودہ کیس بہت سادہ ہے، آپ بنیادی حقوق کیسے ختم کریں گے؟۔ بعد ازاں حکومت کی جانب سے اعتراض کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، 7 رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس نے سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کردی۔ سماعت جسٹس منصور علی شاہ کے بنچ سے الگ ہونے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہماری درخواست پر ابھی تک نمبر نہیں لگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے پر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ریکور کرکے آرہے ہیں۔ چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے مکالمے میں مزید کہا کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعا کر رکھی ہیں۔ جس پر حامد خان نے کہا کہ میں ان میں سے صرف فوجی عدالتوں والی استدعا پر فوکس کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔ درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرے مؤکل کے بیٹے کا معاملہ فوجی عدالتوں میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کرسکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔ جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ ایف پی ایل ای اس کیس سے کیسے متعلقہ ہے، ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ فوجی افسران کے ٹرائل پر تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک فوجی افسر کا بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟۔ سلمان اکرم راجہ  نے کہا کہ اگر ٹرائل سے میرے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے تو پھر خصوصی عدالت میں کیس چل سکتا ہے، بینکنگ کورٹ یا اے ٹی سی جیسی خصوصی عدالتوں میں آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی کسی کا ٹرائل شروع ہوا ہے۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا آپ پھر مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہوگا تو یوں ہوگا، ایسے تو کل فوجی افسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائے گی، ہمارے پاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے، متعلقہ بات ہی کریں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر آپ کا اعتراض 175 تھری کی حد تک ہے؟، یہ جاننا اب ضروری ہے کہ آپ کی سیکشن 2 ڈی پر کیا انڈر سٹینڈنگ ہے؟، ایف پی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کا فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا، کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟، آپ کی کیا دلیل ہے، آپ نے ایکٹ کی شقیں چیلنج کی ہیں اس کی بنیاد کیا ہے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ آرٹیکل 175 تین کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کرسکتا، سپریم کورٹ خود ایک کیس میں طے کرچکی ہے کہ عدالتی معاملات عدلیہ ہی چلا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، کیا آپ فوجی عدالتوں میں فوجیوں کے ٹرائل پر بھی جانا چاہتے ہیں، ہم بہت سادہ لوگ ہیں ہمیں آسان الفاظ میں سمجھائیں، آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ ہاورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو ہمیں یہ ہی بتائیں کہ کیا سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جاسکتا ہے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ صرف کسی پر ایک الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ کئی عدالتیں اور ٹریبونل ہیں جن کا آرٹیکل 175 تین سے تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے کہیں چیلنج نہیں ہوسکتے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فیصلے آرمی چیف یا ان کی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہونا چاہئے، یہ کہنا کہ ملٹری کورٹس ڈسٹرکٹ کورٹ کی طرح ہو تو کیس کا دائرہ کار وسیع کردے گا، ہم آسٹریلیا یا جرمنی کی مثالوں پر نہیں چل سکتے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ متوازی نظام ہے، عدالت نہیں کہہ سکتے؟۔ جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے، آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہوتا ہے، سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں۔ جسٹس عمر عطا  بندیال نے کہا کہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا ہے کہ آپ سویلین کی حد تک ہی ٹرائل چیلنج کر رہے ہیں ناں؟ آپ فوجیوں کے ٹرائل تو چیلنج نہیں کررہے؟۔ جس پر سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ نہیں میں فوجیوں کے ٹرائل چیلنج نہیں کر رہا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں ایمرجنسی یا بنیادی حقوق معطل ہوں تو کیا پھر سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ امریکی قانون اس پر بڑا واضح ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ امریکا میں جو سویلین ریاست کیخلاف ہو جائیں ان کا ٹرائل کہاں ہوتا ہے؟، فیصل صدیقی نے کہا تھا کہ دنیا میں فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل ہوتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا ہمارے خطے میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟۔ سلمان اکرم نے جواب دیا کہ بھارت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جسٹس عمر عطا  بندیال کا کہنا تھا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی کے تحت سویلین کا ٹرائل نہیں ہوسکتا، میرے مؤکل جنید رزاق کو اٹھا لیا گیا، جنید رزاق کے بیٹے ارزم رزاق کو ایک الزام لگا کر اٹھایا گیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل میں کہا کہ ہم تمام درخواست گزاروں کو سپورٹ کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں اوپن ٹرائل ہو، اگر کوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملنی چاہئے، 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں، آپ صرف قانون کی بات کریں۔ وکیل عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی چاہتے ہیں کہ کھلی عدالت میں ٹرائل ہو۔ چیف جسٹس نے کہاکہ امید ہے کہ اس کیس کی سماعت کے دوران کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا، جو افراد گرفتار کئے گئے ان کی مکمل تفصیلات بھی فراہم کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 102 زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملنے کی اجازت دی جائے گی۔ زیر حراست افراد کے کھانے کی بھی شکایت آئی ہیں، زیر حراست افراد کو ریڈنگ میٹیریل بھی فراہم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ خاندان کو کیوں قیدی بنایا گیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار جنید رزاق کی فیملی کب سے قید میں ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 9 مئی سے ارم رزاق و دیگر کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اتنے دن گزر گئے ابھی تک کچھ پتہ نہیں، اٹارنی جنرل آپ اس معاملے کو دیکھیں، ان کو خاندان سے ملنے کی اجازت دیں۔ شکایت کس کی جانب سے تھی، خاندانوں کو کیوں اٹھایا ہے؟ مجھے توقع ہے کہ عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک کوئی ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کو کوئی شکایت ہے تو نام بتا دیں میں متعلقہ حکام سے بات کرنے کی کوشش کروں گا۔ وکیل لطیف خان کھوسہ نے بتایا کہ وکیلوں تک رسائی بھی نہیں دی جا رہی، نہ خاندان کو ملنے دیا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے نام بتا دیں تو میں آگے بات کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھیں۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت آج بروز (منگل ) صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔نوائے وقت رپورٹ کے مطابق  فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے سات رکنی بینچ سے الگ ہونے پر اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہئے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے جسٹس منصور علی شاہ کی سات رکنی بینچ سے علیحدگی کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ حکمنامے میں جسٹس منصور علی شاہ کا بینچ سے علیحدگی بارے وجوہات پر مشتمل نوٹ بھی شامل ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا تحریری نوٹ تین صفحات پر مشتمل ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ نظام عدل کی بنیاد عوامی اعتماد ہے۔ درخواست گزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں۔ میں نے خود کھلی عدالت میں بھی جواد ایس خواجہ کیساتھ رشتہ داری کا بتا دیا تھا۔ اٹارنی جنرل سمیت تمام وکلا نے میری بینچ میں موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا حلف کہتا ہے کہ ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے عوامی مفاد میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ موجودہ زیر سماعت کیس سے جواد ایس خواجہ کسی طرح بھی متاثر نہیں ہوئے۔ میں نے خود سے فوجی عدالتوں کیخلاف کیس سننے والے بینچ سے علیحدگی اختیار نہیں کی۔ میں نے آئین پاکستان کے دفاع اور حفاظت کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ اس کیس میں شفاف ٹرائل، بنیادی انسانی حقوق، انسانیت کی تکریم اور آزادی کا سوال ہے۔ مجھے شدید تحفظات تھے کہ اس عوامی مفاد کے کیس پر سماعت کیلئے فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جانا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز پاکستان میں موجود تھے۔ میرے تحفظات کے باوجود میں فوجی عدالتوں کیخلاف کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ بنا۔ انصاف کی فراہمی کی غیر جانبداری مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ہونی چاہیے۔ ظاہری اور حقیقی غیر جانبدارانہ انصاف عوامی اعتماد اور قانون کی حکمرانی کیلئے ضروری ہے۔ عدالتی غیر جانبداری سے عوامی اعتماد، شفاف ٹرائل، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بقاء  برقرار رہتی ہے۔ عدالتی نظام میں غیر جانبداری اخلاقی نہیں بلکہ عملی ہونی چاہئے۔ عدالتی نظام میں حقیقی غیر جانبدارای سے جمہوری روایات، شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت ہوتی ہے۔ اگر کسی جج پر اعتراض کی معقول وجہ ہو تو عوامی اعتماد برقرار رکھنے کیلئے بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے۔ ایک عام شہری کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ درخواست گزار نے درخواست عوامی مفاد میں دائر کی یا ذاتی مفاد میں۔ میں اعتراض کو ترجیح دیتے ہوئے خود بینچ سے علیحدہ ہو رہا ہوں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...