سوشل میڈیا کی پھیلائی ’’باخبری‘‘ 

سوشل میڈیا کا سرسری مشاہدہ آپ کو اس گماں میں مبتلا کردیتا ہے کہ دورِ حاضر کے انسان ’’باخبر‘‘ ہی نہیں بلکہ دنیا کو درپیش مسائل کے بارے میں بے حد فکرمند بھی ہیں۔ مقامی اور عالمی مسائل کبھی ٹویٹر اور اب ایکس کہلاتے پلیٹ فارم اور یوٹیوب چینلوں کی بدولت مسلسل اجاگر ہورہے ہیں۔ ایسی ’’باخبری‘‘ کی مجھے ہوش سنبھالتے ہی شدید خواہش لاحق ہوگئی تھی۔ سوال مگر اب یہ اٹھانا شروع ہوگیا ہوں کہ سوشل میڈیا نے جو ’’شعور‘‘ پھیلایاہے وہ انسانوں کو چند بنیادی اصولوں کے حوالے سے یکجا کرنے میں کامیاب ہورہا ہے یا نہیں۔ مذکورہ سوال کا جواب ہمیشہ نفی میں ملا جو یہ تمنا اُکسانا شروع ہوگیا ہے کہ کاش دورِ حاضر کا انسان ’’بے خبر‘‘ ہی رہتا۔
بنیادی اصولوں کی بات چلی ہے تو یاد آیا کہ روس فروری 2022ء میں یوکرین پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کی دانست میں یوکرین عظیم تر روس کا جزولانیفک ہے۔ روس مخالف قوتوں نے مذکورہ ملک میں ’’خودمختاری‘‘ کی آگ بھڑکائی۔ سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد وہ آزاد ریاست بن گیا تب بھی امریکہ اور اس کے اتحادی وہاں کی اشرافیہ کو نیٹو میں شمولیت کو راغب کرنا شروع ہوگئے تاکہ یورپ میں ماضی کی بڑی طاقت رہے روس کو اس کی اوقات تک محدود رکھا جاسکے۔روس کے صدر نے اپنے دل ودماغ میں جمع ہورہے خدشات کی بنیاد پر یوکرین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پراکسی بننے سے روکنے کے لئے اس ملک پر جنگ مسلط کردی۔
مجھ سمیت دنیا بھر کے صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کی بے پناہ اکثریت کا یہ خیال تھا کہ تیل وگیس کی دولت سے مالا مال اور رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہوتے ہوئے روس یوکرین پر حملہ آور ہونے کے دو یا تین ہفتوں بعد سرعت سے وہاں کے دارالحکومت پہنچ جائے گا۔ یوکرین کو ’’مادر وطن‘‘ کی آغوش میں واپس لے آنے کے بعد وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کردی جائے گی اور بعدازاں راوی کم از کم روس کے لئے چین ہی چین لکھے گا۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔یوکرین مزاحمت کو ڈٹ گیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جدید ترین اسلحہ اور بھاری بھر کم رقوم کی فراہمی کے ذریعے مزاحمت کو توانا تر بنایا۔ روس اور یوکرین میں جنگ لہٰذا بدستور جاری ہے۔اس کے نتیجے میں قیامت خیز تباہی اور سینکڑوں انسانوں اور گھرانوں کے زیاں اور تباہی کے مناظر بھرمار کی صورت دنیا بھر کے اخباروں اور ٹی وی سکرینوں پر رونما ہورہے ہیں۔ ’’عالمی ضمیر‘‘ نامی شے مگر متحرک ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسا کوئی غیر جانبدار عالمی ادارہ بھی موجود نہیں جو براہِ راست مداخلت کے ذریعے روس اور یوکرین کو مذا کرات کی میز پر بٹھانے کو مجبور کرسکے۔
روس اور یوکرین کے مابین جنگ کی بدولت پاکستان سمیت دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک کیلئے تیل اور گیس کی قیمت ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ ربّ کا صد شکر کہ پاکستان اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ گندم پیدا کرنے کے قابل ہوچکا ہے۔ ہم اس قابل نہ ہوتے تو روٹی کی قیمت بھی آسمان کو چھو رہی ہوتی۔ ذرا سوچیں تو روس اور یوکرین کے مابین جنگ نے دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک کے بے شمار افراد کی زندگیاں اجیرن بنادی ہیں۔ وہ مگر کوئی ایسا اجتماعی فورم تشکیل دینے کے قابل ہی نہیں رہے کہ روس-یوکرین جنگ کی بدولت نازل ہوئی مشکلات کی دہائی مچاتے امن-امن کی فریاد کرتے ہوئے مؤثر انداز میں فریقین پر کسی بھی نوع کا اخلاقی دبائو بڑھاسکیں۔
روس اور یوکرین کے مابین وحشت خیز جنگ جاری تھی تو گزشتہ برس کے اکتوبر سے حماس اور اسرائیل ایک دوسرے کو صفحۂ ہستی سے مٹانے میں مصروف ہوگئے۔ غزہ کی پٹی میں محصور ہوئے ہزاروں فلسطینی اسرائیل کی یک طرفہ بمباری اور فوج کشی کی وجہ سے محض اس خطے کے باسی ہونے کے جرم میں مارے گئے ہیں۔ معصوم بچوں کی ایک ریکارڈ تعداد نہ صرف بمباری بلکہ غزہ کے محاصرے کے سبب بھوک اور متعدد بیماریوں کی وجہ سے مررہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد شاید ہی کسی ملک میں انسانی بے بسی کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملے ہوں گے۔ سوشل میڈیا کی بدولت غزہ پر مسلط ہوئی قیامت کے بارے میں دنیاکا تقریباََ ہر فرد ’’باخبر‘‘ ہے۔ یہ ’’باخبری‘‘ مگر کسی ایسی عالمی تحریک کا باعث نہیں بن پائی ہے جو اسرائیل کو کم از کم جنگ بندی پر رضا مند کرسکے۔
روس اور یوکرین کے مابین جنگ کے برعکس اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک دوسرے کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی جو جنگ جاری ہے اس کے بارے میں سوشل میڈیا نے ہمیں مسلسل ’’باخبر‘‘ رکھا ہے۔ ’’باخبری‘‘ مگر انسانوں کو چند بنیادی اصولوں پر متفق بنانے کے بجائے اسرائیل یا حماس میں سے کسی ایک فریق کو ’’بجانب حق‘‘ ثابت کرنے کو اُکسارہی ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم کی شدت روزمرہ ّکا حصہ بن چکی ہے۔ عرب عوام کی اکثریت مگر غزہ کے بارے میں تقریباََ لاتعلق نظر آتی ہے اور نام نہاد ’’اسلامی ممالک‘‘ کی بے بسی تو عرصہ ہوا بے نقاب ہوچکی ہے۔
روس-یوکرین اور اسرائیل- حماس کے مابین جاری جنگوں کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں اب طویل عرصہ سے خانہ جنگی بھی ہورہی ہے۔ اس تناظر میں تازہ ترین سفاکی سوڈان میں نمودار ہوئی ہے۔ وہاں کی فوج دوحصوں میں بٹ کر ایک دوسرے کو جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال کے ذریعے اپنے تھلے لگانے کے جنون میں مبتلا ہے۔  متحارب دھڑوں کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے خرطوم جیسا تاریخی اور تہذیب کا مرکز شمار ہوتا دارالحکومت کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ کوئی عالمی تحریک یا ادارہ اسے روکنے کو نہ تو آمادہ ہے نہ ٹھوس فوجی اعتبار سے اس قابل کہ جنونی فریقین کو امن کے قیام کی جانب دھکیل سکے۔
فقط تین اہم ترین مثالوں کا ذکر مجھے یہ لکھنے کو مجبور کررہا ہے کہ سوشل میڈیا کی پھیلائی ’’باخبری‘‘ سے میرے بچپن کی ’’بے خبری‘‘ ہی غالباََ بہتر تھی۔ ’’باخبر‘‘ ہوجانے کے بعد دورِ حاضر کا انسان مختلف تنازعات میں الجھے فریقین میں سے کسی ایک کو جانب حق شمار کرتے ہوئے اس کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوجاتا ہے اور اس کے مخالف کی مکمل شکست وذلت کو یقینی بنانے کی تمنا سے مغلوب بھی۔

ای پیپر دی نیشن