’’فائلر اور نان فائلر‘‘ کا اصطلاحی مفہوم

مالی سال برائے 2024-25ء کے وفای بجٹ میں اتحادی حکومت کی جانب سے عوام پر لگائے مجموعی ٹیکسوں کا رونا دھونا ابھی جاری تھا کہ اگلے روز نان فائلر اور فائلر صارفین کی ایک نئی مگر الجھن کا شکار بحث چل نکلی جس میں ہر شہری اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ تو لے رہا ہے مگر انگریزی کے ان دونوں الفاظ کے اصطلاحی مفہوم سے ناآشنا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جس طرح انگریز کے دیئے جمہوری رول ماڈل کو ہم گزشتہ 78 برس سے سمجھ نہیں پائے‘ اسی طرح مالی نظام جس میں ’’فائلر اور نان فائلر‘‘ کی اصطلاحیں موجود ہیں مگر ہماری حکومتیں تاہنوز عوام میں اسکی اہمیت اجاگر کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں ادائیگی ٹیکس کا منظم نظام بلاشبہ موجود ہے۔ برطانیہ جیسی فلاحی ریاست میں جاری اس نظام سے دنیا کے متعدد ترقی پذیر ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بیشتر غیرترقی یافتہ ممالک کیلئے اس برطانوی فلاحی نظام کی روشنی میں وہ اپنی معیشتیں مضبوط کرنے کی پالیسیاں مرتب کر رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود اپنے اسلامی طرز معاشرت اور ٹیکس نظام کو ابھی تک اسلامی اصولوں کے مطابق متعارف نہیں کروا سکے۔ اسے قومی المیہ کہہ لیں کہ ہمارے ہاں آج بھی ٹیکس لینے اور ٹیکس دینے کا وہ واضح طریقہ موجود نہیں جس سے عوام کو انکی آمدنی اور خرچ کے حساب سے ٹیکس ادا کرنے میں آسانی ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ادائیگی ٹیکس کا تصور زیادہ امیر‘ دونمبر امیر‘ غریب مزدور اور غریب ترین دیہاڑی دار سے گزر کر مڈل کلاس افراد کی سفید پوشی پر آکر ختم ہو جاتا ہے اور یہی وہ بنیادی رکاوٹ ہے جہاں کم تنخواہ دار اور دیہاڑی دار طبقہ حکومت کو ٹیکس ادا نہ کرنا اپنا حق تصور کررہا ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ عدم جمہوریت‘ عدم سیاسی استحکام‘ اور عدم معاشی اور اقتصادی حالات قوم کو آج اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی مشروط مالی شرائط کے بغیر ملک چلانا ایک گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ میں ماہر معاشیات اور نہ ماہر اقتصادیات ہوں‘ مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ مہذب دنیا میں ٹیکسوں کے بغیر کولیشن حکومتیں چلانا ممکن نہیں۔ دنیا کے ہر ملک کو مالی طورپر مستحکم کرنے اور وہاں کے عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے مضبوط اور آسان ترین ٹیکس نظام متعارف کروانا وقت کی اہم ضرورت ہوتا ہے مگر افسوس! اسلام کے نام پر حاصل کی ہماری ریاست پاکستان میں بڑے بڑے صنعت کار‘ بڑے بڑے بزنس مین اور سرکاری اعلیٰ گریڈوں پر فائز بعض افسران سرکار کی دی مراعات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے باوجود حکومت کو ٹیکس نہ دینا‘ ٹیکس چھپانا اور پھر ٹیکس کے حوالے سے دروغ گوئی کا سہارا لینا اپنا بنیادی حق تصور کرتے ہیں جبکہ کم آمدنی والے مزدور دیہاری دار اور سفید پوش طبقے پر ٹیکس ادا کرنے کیلئے زیادہ دبائو ڈالا جاتا ہے۔ 
معاملہ چونکہ بجٹ کا ہے اس لئے ہر صوبے کی پہلی کوشش اب یہ ہوگی کہ اسکے عوام اور اسکے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے مرکز سے اسے زیادہ سے زیادہ فنڈز دستیاب ہوں تاکہ اتحادی اراکین اسمبلی زیادہ سے زیادہ اپنے علاقائی منصوبے پورے کرسکیں۔ اس سلسلہ میں حکومت پنجاب کا اگر ذکر کیا جائے تو ٹیکس فری اور سرپلس بجٹ میں گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کیلئے 20 فیصد اضافہ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح پنشن میں 15 فیصد اضافہ اور مزدور کی کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔ پنجاب کا یہ مجموعی بجٹ 446 ارب روپے ہوگا جس میں ترقیاتی سکیموں کیلئے  842 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ 50 لاکھ روپے تک کی رہائشی جائیداد کو بھی ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے بجٹ میں جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے ازالہ کیلئے 80 ارب روپے سے زائد منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ بجٹ میں صحافیوں کے ہیلتھ پروگرام کیلئے بھی ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ میں کسان کیلئے گرین ٹریکٹر سکیم‘ 5 مرلے میں گھر تعمیر کرنے والوں کیلئے آسان قرضوں سمیت خستہ حال سڑکوں‘ شاہراہوں کی مرمت سمیت 2 ارب روپے کی لاگت سے انڈرگریجویٹ‘ سکالر شپ پروگرام کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ مگر پنشن کے حوالے سے حکومت پنجاب نے بعض سینئر سٹیزن پنشنروں کیلئے مبینہ طور پر اس فنڈ کا اجراء نہیں کیا جو انکی ضرورت تھی۔ دیگر صوبوں میں بجٹ کی نوعیت کیا ہوگی؟ وفاق انہیں انکے مطلوبہ فنڈ مہیا کر پائے گا؟ ایسا سوال ہے جس کیلئے وفاقی حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہونگے۔ 
اب جہاں تک فائلر اور نان فائلر کے مفہوم کو آسان ترین طریقے سے سمجھنے کا معاملہ ہے‘ تو سچ یہ ہے کہ میں خود بھی ان دونوں انگریزی لفظوں کے باوجود سر کھپانے اور اپنے ایک ماہر اقتصادیات گورے دوست کی بتائی لمبی چوڑی تمہید کے باوجود سمجھ نہیں پا رہا۔ اس  بارے میں اپنے ہی شہر کے بہت زیادہ پڑھے لکھے دوست ناصر سے جو ماہر معاشیات اور چارٹرڈ اکائونٹنسی کے تمام تر قانونی عوامل پر پوری دسترس بھی رکھتے ہیں‘ اگلے روز پوچھا تو انہوں نے بھی وہی کچھ بتایا جو حکومت کی فنانشل بک میں ٹیکس دہندگان اور نادہندگان کیلئے درج ہے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ جس طرح مبینہ طور پر اسلام آباد‘ کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کو لفظ آئوٹ سورس سے نجی شعبے میں دیا جا رہا ہے‘ لفظ اگر Lease بھی استعمال کر لیا جائے تو دونوں انگریزی الفاظ کا مفہوم ایک ہی ہے۔ ’’پٹہ‘‘ پر دینا یا طویل ٹھیکہ کہہ لیں۔ عوام کیلئے تو آسان زبان ہونی چاہیے۔ اس سلسلہ میں اپنے بنک منیجر دوست فیض سبحانی سے جاننا چاہا تو ان کا کہنا تھا کہ Remittance کے حوالہ سے اپنے اوورسیز پاکستانیوں کی خدمت کرتے ہوئے اس لئے بھی فخر محسوس ہوتا ہے کہ اپنے وطن عزیز بھجوائی اپنی آمدن پر ٹیکس ادا کرنے میں وہ قطعی جھجھک محسوس نہیں کرتے اور سادہ ترین الفاظ میں یہی وہ عمل ہے جسے ’’فائلر‘‘ اور اس عمل سے عاری شہری کو ’’نان فائلر‘‘ کہتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...