ہسپتال

جب بھی امریکہ جاتی تو لوگ امریکہ کے ہسپتالوں کی بڑی تعریف کرتے ۔۔۔۔۔مگر کبھی کسی ہسپتال جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ تھا دو سال پہلے جب امریکہ اپنی بیٹی کے پاس گئی تو اچانک میرے میاں کی طبیعت خراب ہوگئی۔ انہیں پیٹ میں بہت زیادہ درد ہو رہی تھی۔ فوراََـ گھر کے آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر کرسٹییاناںہسپتال کی ایمرجنسی میںلے گئے۔ سارے عملے نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ تکلیف کی نوعیت کے مطابق ٹیسٹ لینے شروع کردیئے جب ٹیسٹ کرلیے تو دوائیں تجویز کیں ۔ گھر واپس جانا چاہا تو انہوں نے واپس جانے کی اجازت نہیں دی اور ہسپتال میں ایڈمٹ کرلیا۔ سن رکھا تھا کہ ہسپتال وہاں کے بہت مہنگے ہیں ۔ پردیس میں اتنا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے تھے مگر انہوں نے کہا ہماری پالیسی (Policy)نہیں ہے کہ اس حالت میں بھیجیں اور کمرے میں شفٹ کر دیا ۔
دوسرے دن میں گئی تو دن کے وقت ہسپتال کو دیکھا تو دنگ رہ گئی۔ اتنا صاف ستھرا ہسپتال ۔۔۔۔ہسپتال ہی نہیں لگتا تھا۔ صاف ستھری کینٹین عمدہ کچن مریضوں کے لئے کھانا پک رہا تھا سفید سفید چادروں سے بچھے کمرے ہر آلودگی سے پاک۔ وہ ہسپتال نہیں بلکہ فائیو سٹار ہوٹل لگ رہا تھا۔ نرسیں اور ڈاکٹر مریضوں کا بہت خیال رکھ رہے تھے۔
جان تو اللہ کی ذات ڈالنے والی ہوتی آخر وقت مریضوں کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسان تو ایک طرف حیوانوں کی جانوں کا اسی طرح خیال کرتے ہیں جیسے انسانوں کا کرتے ہیں۔
 خیر کچھ دنوں کے بعد ہسپتال والوں نے کافی رعایت کی۔۔۔۔ کہا کہ آپ کل ایمرجنسی میں آئے تھے۔۔۔بل اتنا نہیں لے رہے ہیں۔ کیونکہ ہم نے آپ کو ایڈمٹ کیا تھا۔ 
ہسپتال کی واپسی پر مجھے ایک پرانا واقع یاد آگیا۔ جب میرے میاںسروس میں تھے۔ ایک ملازم کی چھاتی میں شدید درد ہوا تو ہم اسے کارڈک انسٹیٹیو ٹ کی ایمرجنسی میں لے گئے۔ اس وقت کوئی ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔ بڑی مشکلوں سے ڈاکٹر کوبلوایا ملازم کا درد کے مارے برا حال تھا۔ تھوڑی دیر کے بعدڈاکٹر آنکھیں ملتا ہوا آیا اور بڑی ناگواری سے بولا کہ کیا مسئلہ ہے میرے میاں نے کہا اس کی چھاتی میں درد ہے اس کی ای سی جی ہونی چاہئے تو اس نے جواب دیا یہ روز اس طرح کے بہانے کرتے ہیں۔ آپ کا وقت بھی برباد کرتے ہیں اور ہمیں بھی تنگ کرتے ہیں وہ میرے میا ںسے کہنے لگا۔ وہ سامنے الماری ہے اس میں دو پینا ڈول پین کلر کی گولیاں ہیں کھلائیں اور گھر لے جائیں۔ میرے میاں کو غصہ آگیا۔ نرم لہجے سے ایک دم سختی میں آگئے بولے جلدی سے ای سی جی کروائیں ڈاکٹر نے کہا ڈاکٹر میں ہوں کہ آپ ۔۔۔۔آپ کون ہیں؟ 
ملازم نے درد بھرے لہجے سے کہا میرے مالک جج صاحب ہیں۔ ڈاکٹر کو ایسی پھرتی آگئی بجلی کی سرعت اس کے جسم میں دوڑ گئی۔ پھر کیا چھوٹے بڑے ڈاکٹر اکٹھے ہو گئے۔ ای سی جی ہوئی تو ملازم کو ہارٹ اٹیک ہورہا تھا۔ یہاں تک کہ سپیشلسٹ بھی پہنچ گیا۔
غریب لوگ علاج کروانے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک ہوتا ہے۔ بیچارے ایڑیاں رگڑرگڑ کر مر جاتے ہیں ڈاکٹروں کی بے حسی کی وجہ سے۔ ہو سکتا ہے چند اچھے بھی ہوں حالانکہ ہمارے ملک میں اعلیٰ ڈاکٹر ہیں لوگ بھاری ہسپتالوں کیلئے چندہ دیتے ہیں جس میں مشینیں بھی ہر مرض کی تشخیص کے لئے موجود ہیں۔ نہ جانے انسانیت کا جذبہ کیوں نہیں ہے۔ اسلام کے سارے اصول دوسرے ملکوں نے اپنائے ہیں پھر یہاں کیوں نہیں ۔
غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں وہ اپنا علاج کیسے کروائے گا۔ اللہ سے دعا کرتی ہوںکہ لوگوں
 کے دلوں میں نیکی کا جذبہ پیدا ہو جائے۔ اور یہ لوگ صرا ط مستقیم پر چلیں۔
حکومتیںبدلتی ہیں اور بدلتی رہیں گی۔۔۔۔مگر ان غریبوں کے بارے کون سوچے گا۔ ہم لوگوں کو خود سوچنا چاہیے جو صاحب حیثیت ہیں ان کو غریبوں کی دل کھول کر مدد کرنی چاہیے۔ اللہ ان کو بہت نوازے گا۔ کاش وہ دن جلد آئے آمین۔

ای پیپر دی نیشن