عزم استحکام کو عدم استحکام بنانے کی کوشش  

ہم عجیب لوگ ہیں ۔ہمارے سیاست دانوںنے اپنی منافقت میں عوام کے ذہنوں کو بھی معائوف کردیا ہے ، سوچنے سمجھنے کی شروعات اپنے دل دماغ پر حاوی سیاست دان سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے ۔ سرحد پار سے دہشت گردی نے ہماری معیشت کو تباہی کی طرف دھکیل رکھا ہے ، ٹیکس ادا نہ کرنا بھی ملکی معیشت کے خلاف دہشت گردی ہی ہے ۔ اب تو دوست ملک جس کے سی پیک منصوبے نے ملکی معیشت کی آبیاری کیلئے پاکستان دوستی میںاپنا قدم رکھا ہوا ہے اسے ناکام کرنے کیلئے ، بیرون ملک سے سرمایہ کاری روکنے کیلئے سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی نے جہاں نقصان پہنچایا ہے وہیں ہمارے سیاست دانوںنے بھی اس میں بھر پور حصہ لیا ہے۔ خاص طور پی ٹی آئی کے دھرنوںکا وہ زمانہ یاد آتا ہے جب اسٹیج پر کھڑے ہوکر انکے کپتان نے بجلی کے بل پھاڑے ، اسٹیج سے اعلان ہوا کہ بیرون ملک پاکستانی اپنی رقومات بنکوںکے ذریعے نہیں بلکہ ہنڈی سے بھیجیں ۔ چینی صدر کے دورے کو روکا گیا ، ان تمام باتوں کے بعد جس جماعت نے ملک دشمنی میں آخری کیل 9 مئی کی واردات کے ذریعے ٹھونکی ہو اس سے محب وطنی کی امید ایک دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے ، ہمارے ملک کا قانون اور نام نہاد اظہاررائے اور انسانی آزادی کا سہارا لیکر انہیں رہائی ملتی ہے ، موجودہ عسکری قیادت ، اور حکومت اپنی تمام تر کوشش میں مصروف ہے کہ حالات پر قابو پایا جائے۔ ملکوںملکوںگھوم کر معیشت کی بہتری کیلئے قرض لئے گئے ہیں جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے تین چار سالہ دور اقتدار میں ملکی قرضوں میں اضافہ کیا جسکا حجم اتنا تھا کہ انکی حکومت سے قبل کی پاکستان کی تاریخ میں کل قرضہ نہیںلیا گیا ، اب تو ہمیشہ سے بہترین دوست چین بھی ہمارے اندورنی حالات پر ،جس میں سرحد پار دہشت گردی اہم عنصر ہے بالاآخر چیخ پڑا ہے ،اسکے انجینئرز اغوا کئے گئے انہیں جان سے مارا گیا جسکے بعد چین کیلئے بھی سرمایہ کاری ممکن نہیں تھی چین کے بیانات کے بعد ایک مرتبہ پھر عسکری اور سیاسی قیادت جس میں تمام صوبوں کے وزراء اعلی بھی شامل تھے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ،2009ء میں سوات واقعہ جہاں افغانستان کے جنگجو قابض ہونے کا دعویٰ کررہے تھے ، 2014ء میں آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی جسکے نتیجے میں اسوقت کے آئی ایس آئی کے چیف نے افغانستان کا ہنگامی دورہ کیا اور وہاںکی حکومت کو دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے کا فوری مشورہ دیا ، پی پی پی حکومت کے دور میں راہ نجات اور ضرب عضب آپریشن کئے گئے ، دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے ، مگر پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالنے کے بعد انہیں پاکستان آنے کو دوبارہ اجازت دے دی ،حالیہ ایپکس اجلاس میں آپریشن’’ عزم استحکام‘‘ کا اعلان کیا گیا ، وہاں عسکری قیادت بھی موجود تھی مگر اجلاس سے باہر نکل کر اسمبلی اجلاس میں حز ب اختلاف نے وا ویلا مچا کر دنیا کو تماشہ دکھایا جس میں خاص طور پر پی ٹی آئی ، اور مولانہ فضل الرحمان اور چند چھوٹی حزب اختلاف جماعتیں شامل تھیں اس عزم استحکام کو عدم استحکام بنانے کی کوشش کی گئی  پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا جسے پی ٹی آئی کی بھر پور حمائت حاصل ہے نہ جانے یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ اسوقت فلسطین میں اسرائیلی فسطایت اسلئے زور پکڑ رہی ہے کہ فلسطین کی اپنی کوئی فوج نہیں ۔ جس طرح علیحدگی پسند مجیب الرحمان نے بھارت کے ساتھ ملکر افواج پاکستان اور عوام میں پی ٹی آئی کی جانب سے نفرتوں کے بیج بوئے تھے وہی کھیل آج پاکستان میں کھیلا جارہا ہے ورنہ 9 مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کو تاحال سزا نہ ملنا سمجھ سے بالا تر ہے ، سزائوںمیں تاخیر ، افواج پاکستان کی تذلیل کرکے صرف اور صرف بھارت اور ملک دشمنوں کو خوش کیا جاتا ہے ۔ دہشت گردی کی روک تھام کرنا صرف اور صرف افواج پاکستا ن یا مرکزی حکومت کی نہیں بلکہ صوبوں کی بھی ذمہ داری ہے۔  جب تک سب ملکر یہ کام نہیں کرینگے عزم ستحکام کی کوششیںخدانخواستہ عدم استحکام ثابت ہونگیںپاکستان ، اور عسکری اداروں کی ضرورت نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ممالک کو بھی ہے ، جیسا اوپر تحریر کیا گیا ہے پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران افغانستان میں پناہ لینے والے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو واپس پاکستان میں اپنے ٹھکانوں پر آنے کی اجازت دینے کی وجہ سے بڑی تعداد میں سویلین اور فوجی جوان شہید ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ آپریشن کے نام پر اسے بھی نشانہ بنایا جائے گا( چور کی داڑھی میں تنکا والی مثال ) ۔ دہشت گردی زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہو رہی ہے اور ٹی ٹی پی کا زیادہ نشانہ خیبر پختونخوا ہے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ وہ ہی کسی بھی آپریشن کے خلا ف ہیں جس سے انکی عوام کے تحفظ کے لئے غیر سنجیدگی کا اندازہ لگانایا جا سکتا ہے۔  دہشت گردی سالہا سال سے جاری ہے۔ اس کے خاتمے کے لئے ضرب عضب اور رد الفساد کے نام سے پہلے بھی آپریشن ہوچکے ہیں۔ اسو قت بھی نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کی سرکوبی جاری ہے۔ چونکہ ان کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں اور دہشت گرد جنہیں پہلے سے آئے ہوئے تخریبی عناصر کی عملی مدد حاصل ہے وہاں سے آکر وارداتیں کرتے ہیں اس لئے ان سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر کارروائی کی ضرورت ہے۔ ایسے میں ملک کے اندر سیاسی انتشار اور اختلاف برائے اختلاف بہت بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ قومی استحکام، امن و امان اور دہشت گردی سے پاک ماحول ملک کی معاشی ترقی اور سماجی خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔سیاستدان خواہ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، سیاسی پوائنٹ اسکور نگ اور انا پرستی سے ہٹ کر مفاہمت اور ہم آہنگی کی سوچ اپنائیں اور بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے اس مشکل وقت میں مذاکرات کے ذریعے درپیش مسائل کا حل تلاش کریں۔ 

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...