موساد کے لیے کام کرنے والی ایریکا میری چیمبرز کا بظاہر تعلق لبنان میں فلسطینیوں کے مفادات کے لیے کام کرنے والی تنظیم سے تھا۔اس کا زیادہ تر وقت برطانیہ میں گزرتا۔اسے خصوصی مشن پر بیروت جانے کو کہا گیا۔بیروت میں وہ علی حسن سلامہ کے معمولات کو نوٹ کرنے اور ریکارڈ رکھنے لگی۔ سلامہ یاسر عرفات کا متبنیٰ تھا وہ انہیں اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے۔تربیت کے طور پر وہ رنگین مزاجی سمیت ساری سرگرمیاں چھوڑ کر بیروت میں رہائش پذیر ہوگئے۔ سلامہ کے اپارٹمنٹ کے قریب ایریکا نیآٹھویں منزل پر ایک فلیٹ کرائے پر لیا تھا۔ موساد کے دیگر لوگ بھی کینیڈین اور برطانوی پاسپورٹ پر بیروت میں داخل ہوئے۔
ایک اندھیری رات اسرائیلی بحریہ کی ایک کشتی بیروت کے قریب ایک ویران ساحل پر اتری۔کشتی میں دھماکہ خیز مواد تھا، جو کرائے کی کاروں میں لادا گیا تھا۔ٹیم لیڈر نے ایک کار میں بارود نصب کیا۔ یہ کاریں اس لین میں کھڑی کی گئی جہاں سے سلامہ کا قافلہ روزانہ گزرتا تھا۔
یہ 22 جنوری 1979ء کی سرد صبح تھی۔ایریکا اپنے فلیٹ سے گاڑی دیکھ سکتی تھی۔ علی حسن کی شیورلیٹ جیسے ہی معمول کے مطابق تیز رفتاری سے گزری ایریکا ڑونگ نے ریڈیو پر بٹن دبا دیا۔ زور دار دھماکہ ہوا اور علی حسن کی گاڑی کے پرخچے اڑ گئے۔انکا باڈی گارڈ مر چکا تھا، وہ ابھی تک سانس لے رہے تھے۔ انھیں ہسپتال لے جایا گیا مگر بچ نہ پائے۔دھماکے کی رات، ایریکا اور انکا دوست اسی سنسان ساحل پر اسرائیلی بحریہ کی کشتی پر سوار ہوئے اور لبنان میں اپنا جرم چھوڑ کر نکل گئے۔
1972ء سے 1979ء کے درمیان یورپ اور عرب ممالک میں ایک درجن سے زائد فلسطینیوں کو ’ریتھ آف گاڈ‘ مہم کے تحت قتل کیا گیا۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بلیک ستمبر اپریشن میں ملوث تھے جس کے تحت جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والے اولمپکس گیمز کے دوران 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کو فلسطینی جنگجوؤں نے اغوا کرنے کے بعد اسرائیل میں قید سیکڑوں فلسطینیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور مطالبہ پورا نہ ہونے پر ایک ایک کر کے دو کو ہلاک کیا باقی جرمن اداروں کے آپریشن میں ان کے اناڑی پن کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ آٹھ میں سے پانچ اغوا کار بھی مارے گئے تھے۔تین گرفتار ہوئے جن کو فلسطینیوں نے جرمن لفتھانسا طیارہ اغوا کر کے چھڑا لیا تھا۔
اپنے 11 کھلاڑیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے موساد نے اپریشن ریتھ آف گاڈ لانچ کیا۔16 اکتوبر 1972ء کو فلسطینی مترجم وائل زیویٹر یورپ میں آپریشن ’خدا کا غضب‘ کا پہلا ہدف بنے جبکہ علی حسن سلامہ عرف ریڈ پرنس آخری ٹارگٹ تھے۔اسرائیل اور اس کے حامی اس اپریشن کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیل کسی بھی وقت کہیں بھی پہنچ سکتا ہے اور کسی کو بھی مار سکتا ہے۔مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔حملہ آوروں میں ایک جمال الگاشی بھی تھے۔ 90ء کی دہائی کے اواخر تک روپوشی میں انٹرویوز بھی دیتے رہے۔
چند روز قبل بریگیڈیئر ریٹائرڈ امیر حمزہ کو جہلم کے قریب قتل کر دیا گیا تھا۔لاہور کے رہائشی امیر حمزہ اپنی اہلیہ صفیہ اور بیٹی مسکان کے ہمراہ دوسری بیٹی سے عید پر ملنے للہ ٹائون سے چکوال جارہے تھے۔بھیرا انٹر چینج کے قریب دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار افراد نے گاڑی پر فائرنگ شروع کردی، سر اور جسم کے دیگر حصوں پر گولیاں لگنے سے بریگیڈیئر صاحب موقع پر دم توڑ گئے جبکہ بیٹی اور اہلیہ شدید زخمی ہوئیں۔مقتول کے بھائی کی طرف سے درج کرائی گئی ایف ائی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے فائرنگ کے بعد گاڑی کے پاس جاکر باقاعدہ تسلی بھی کی بھائی زندہ تو نہیں ہے۔
بھارتی میڈیا کہہ رہا ہے کہ بریگیڈیئر امیر حمزہ سنجوان کیمپ حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ وہ آئی ایس آئی کے اعلی عہدے پر فائز تھے۔ایک بھارتی اردو اخبار نے تو سرخی جمائی ہے پاکستانی سرزمین پر ہندوستان کے ایک اور دشمن کا خاتمہ کر دیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر کے جموں شہر کے وسط میں سنجوان فوجی کیمپ پر 11 فروری 2018ء کو جنگجوئوں نے دھاوا بول کر چھ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔زخمیوں میں پانچ خواتین سمیت نو افراد شامل تھے حملہ آوروں کی تعداد چار تھی بھارتی ’’سورما‘‘ فورس نے ان پر قابو پانے کے لیے 30 گھنٹے لیے .بھارتی ایجنسیوں کی طرف سے مقابلے میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کا تعلق جیش محمد سے بتایا گیا تھا۔
سب سے پہلے ٹائمز اف انڈیا کی طرف سے بریگیڈیئر حمزہ کا تعلق آئی ایس آئی آئی سے جوڑاتھا۔بھارتی میڈیا کے جھوٹ کی قلعی امیر حمزہ کے جاننے والوں اور پاک فوج کی طرف سے کھول دی گئی۔ امیر حمزہ پاک فوج سے 2016ء میں ریٹائر ہوئے۔2018ء تک 1122 کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔اس کے بعد انہوں نے کوئی دوسرا ادارہ جوائن کر لیا۔سنجوان حملہ 11 فروری 2018ء میں ہوا۔مزید برآں برگیڈیئر امیر حمزہ کبھی آئی ایس آئی کا حصہ نہیں رہے۔بھارتی را بڑے بڑے آپریشن اور دہشتگردی کی وارداتیں کرتی ہے۔ گارڈین اپنی بھارتی دہشت گردی میں پاکستان کے اندر 20 افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی رپورٹ دے چکا ہے۔ ان 20 لوگوں کے خون کا بدلہ اداروں پر ادھار ہے۔بریگیڈیئر امیر حمزہ کے مرڈر میں بھارتی ہاتھ نظر نہیں آتا "را " اس قتل کا کریڈٹ سمیٹ رہی ہے۔ اگر اس نے واقعی یہ سارا کچھ کیا ہوتا تو اپنے میڈیا کو مکمل تفصیل جاری کر چکا ہوتا ہے کہ بریگیڈیئر امیر حمزہ کب اور کہاں کہاں سروس کرتے رہے۔ سنجوان کیمپ حملے میں ان کا کیا کردار تھا ؟؟ را خود کو موساد کی طرح منصوبہ ساز باور کروانا چاہتی ہے۔
امیر حمزہ کی بظاہر کسی سے ایسی دشمنی نہیں تھی کہ مخالف ان کی جان کے درپے ہو جاتے مگر ان کی ایک دو ایسی مخالفتیں ضرور تھیں جو سیٹل ہو چکی تھیں۔بھارت کے بے بنیاد دعوے کو باطل ثابت کرنے کے لیے بریگیڈیئر امیر حمزہ کے قتل کے محرکات کو سامنے لانا نہایت ضروری ہے۔
٭…٭…٭