وزیر آباد میں خاکروب ڈاکٹر بن کر مریضوں کو دیکھتا رہا
کیسے کیسے مخیر القول واقعات ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ سوچو تو دماغ پھٹنے لگتا اٹھتا ہے۔ ہسپتالوں میں کبھی وارڈ بوائے کبھی لفٹ آپریٹر کبھی خاکروب کبھی آیا اور چوکیدار ڈاکٹر بن کر مریضوں کو چیک کرتے ہیں۔ بات صرف ڈسپنسر تک ہی رہتی تو زیادہ پریشانی نہ ہوتی۔ کیونکہ کم از کم ان کو بیماری اور ادویات کے حوالے سے کچھ شد بد ہوتی ہے۔ مگر یہ جو باقی لوگ ہیں ان کا کون سا علم ہے جو انہیں ڈاکٹر بننے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ تو شہر کا حال ہے۔ دیہات میں کیا کچھ ہوتا ہو گا۔ جہاں ویسے بھی ڈاکٹر جانا پسند نہیں کرتے اور اگر کسی کی ڈیوٹی لگ بھی جائے تو وہ لاٹ صاحب وہاں جانا پسند نہیں کرتے حاضریاں ان کے فرشتے لگاتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں وہاں کا طبی عملہ یعنی پیرامیڈیکل سٹاف ہی ڈاکٹر ، نرس ، آیا بن کر تمام مریضوں کو چیک کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں چھوٹا موٹا آپریشن تک کر لیتے ہیں۔ اب چونکہ شفا منجانب اللہ ہوتی ہے۔ اس لیے کچھ مریض جاں سے گزر جاتے ہیں اور کچھ خوش قسمت بچ جاتے ہیں جس پر کہہ سکتے ہیں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
اب وزیر آباد میں اس واقعہ کے بعد البتہ یہ ایکشن لیا گیا کہ وہ خاکروب جو ڈاکٹر بنا تھا وہ اور جس نے یہ ویڈیو بنائی اس کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔ اسے شاید اس جرم میں معطل کیا گیا کہ اس نے یہ ویڈیو کیوں بنائی۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقت کا پردہ فاش نہ ہو۔ تمام ہسپتالوں میں جگہ جگہ لکھا ہوتا ہے کہ فوٹو اور ویڈیو بنانا قانوناً جرم ہے یا منع ہے۔
٭٭٭٭٭٭
افغان ٹیم کے کھلاڑی کی گرائونڈ میں چوٹ لگ گرنے کی زبردست اداکاری
سب سے پہلے تو افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو مبارکباد دینا رسم دنیا بھی بنتی ہے اور دستور بھی۔ اگرچہ وہ ہمیں پسند نہیں کرتے ہمیں دوست نہیں مانتے مگر کھیل تو کھیل ہے۔ ٹی ٹونٹی 2024ء امریکہ میں افغان ٹیم نے جاندار کارکردگی دکھلائی اور بڑی بڑی نمبر ون ٹیموں کو پچھاڑ کر جس طرح رنگ جمایا اور سیمی فائنل تک پہنچی اس نے واقعی میلہ کسی حد تک لوٹ لیا کیونکہ کھیل کے ساتھ ساتھ افغان کھلاڑیوں کی اداکاری کہہ لیں یا فنکاریاں بھی دیکھنے والی تھیں۔ لگتا ہے سب ہی ڈرامہ باز ہیں۔گزشتہ روز کے میچ میں افغان کھلاڑی نے جس طرح اپنے کوچ کے اشارے پر میچ کو طول دیا تاکہ بارش کے باعث افغان ٹیم کو رن ریٹ کا فائدہ ہو وہ سب نے دیکھا کہ گلبدین کیسے گیند لگنے کی اداکاری کر کے گر گئے اور طبی عملے نے انہیں سہارا دے کر اٹھایا۔ ایک اچھا اداکار ہی ایسی اداکاری کر سکتا ہے۔ اس دوران کیمرے نے ان کے چہرے پر آئی ہنسی کو بھی نمایاں کیا۔ یوں لگ رہا تھا کہ اس طرح افغان ٹیم جیتا چاہتی ہے۔ورنہ اگلے ہی اوور میں کس طرح گیند سے زخمی ہونے والا بائولر پھر جاندار بائولنگ کرا نے لگتا ہے اب کھیل میں بھی جنگ اور محبت کی طرح سب کچھ جائز سمجھا جانے لگا ہے۔ اس سے قبل ایک میچ میں بھی افغان بائولر نے بولنگ کراتے ہوئے ایکشن لیا مگر گیند نہ پھینکی اور یوں پاکستانی کھلاڑی دھوکا کھا کر رنز بنانے دوڑ ا اور رن آئوٹ ہو گیا۔ بہرحال پاکستان کے گلی کوچوں میں کرکٹ سیکھنے والوں کی عالمی سطح پر اس طرح کامیابی واقعی زبردست ہے اور دیکھتے ہیں سیمی فائنل میں افغان جلیبی جو خاصی ٹیڑھی ہے کیا رنگ دکھاتی ہے۔ سب ٹیمیں سو چتی تو ضرورہوں گی۔
٭٭٭٭٭٭
ہم حق جھیننا جانتے ہیں۔ علی محمد خان
اس معاملہ میں پی ٹی آئی ایک خوش قسمت جماعت ہے کہ اس میں ’’لنکا سے جو نکلا سو باون گز کا‘‘ کے مصداق دبنگ لہجے والے لیڈروں کی کوئی کمی نہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک سامنے یوں آتا ہے کہ گویا قطار میں لگے ہیں۔ ایک ہٹتا ہے دوسرا اس کی جگہ سنبھال لیتا ہے۔ یہی اینگری مین والی باتیں مولانا فضل الرحمن بھی کرتے ہیں اور محمود اچکزئی بھی مگر وہ اس طرح کا ایکشن نہیں بنا پاتے جیسے پی ٹی آئی والے بناتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر سیاسی نوٹنکی میں سب سے اچھے اداکار و صداکار کسی کو دستیاب ہیں تو وہ صرف پی ٹی آئی ہی ہے۔ باقی سب ماٹھے اداکار ہیں۔ آج کل پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان نے مائیک سنبھالا ہوا ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر گرج برس رہے ہیں۔ ان کا لہجہ بھی خاصہ جارحانہ ہے۔ وہ قومی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کی کمی پوری کر رہے ہیں۔ وہ اسمبلی میں اور پریس کے سامنے جس طرح حکومت ، اداروں کو للکار رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب کی بار تو ایک مرتبہ پھر ساری جماعت میدان میں نکلنے کو تیار ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے بھی وہی بات کی جو پہلے ہی سب کہہ رہے ہیںکہ ہمیں حق چھیننا آتا ہے۔ سیاست میں یہ چھینا جھپٹی والا کھیل اس وقت صورتحال کو خراب کر رہا ہے۔ نفرتوں کو جنم دے رہا ہے۔ سب حقوق لینے کی بات تو کرتے ہیں مگر افسوس ہے کہ کوئی بھی کسی دوسرے کو اس کا حق دینے کی بات نہیں کرتا۔ اگر ہم ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں تو اس قسم کی باتوں سے، تقریروں سے نجات مل سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
اسرائیل کی لبنان پر حملے کی دھمکی
کہتے ہیں گیدڑ کی شامت آئے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ اسی طرح چیونٹی کے بھی پر نکل آتے ہیں۔ اسرائیل ابھی تک غزہ میں ہونے والی بھرپور مزاحمت کا مزہ چکھ رہا ہے۔ خطرناک ترین اسلحہ اور بم استعمال کر کے وہ دیکھ چکا ہے کہ فلسطینی اس کی وحشت و بربریت کے آگے سرنگوں نہیں ہو رہے۔ عالمی برادری سے علیحدہ تف تف ہو رہی ہے۔ مگر نیتن یاہو کی شکل میں اسرائیل پر جو وبال آیا ہوا ہے وہ مشرق وسطیٰ میں ابھی تک تباہی پھیلا کر مطمئن نہیں ہوا۔ وہ اب جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کے درپے ہے۔ مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ بالآخر عالی برادری اور عرب ممالک کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر کسی کے پاس پیمانہ ہی نہ ہو تو وہ صبر کی صراحی خالی ہونے کا انتظار کر سکتا ہے۔ اسرائیل تو عالمی عدالت کو، اقوام متحدہ کو کسی کھاتے میں نہیں لا رہا اور غزہ میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ اب اس نے دھمکی دی ہے کہ وہ لبنان کیخلاف جنگی کارروائی کرے گا۔ یہ سب کچھ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شہہ پر کہہ رہا ہے جو ابھی تک اس کے جرائم پر پردہ ڈال کر اسے پیسہ اور اسلحہ دے رہے ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ لبنان پر حملے کی صورت میں مشرقی وسطی ایک الائو میں تبدیل ہو جائے گا جس سے آس پاس کے پڑوسی ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ اس لیے امریکہ اپنے اس پالتو درندے کو لگام ڈالے۔
٭٭٭٭٭٭
جمعرات، 20 ذوالحج ، 1445ھ،27 جون 2024ء
Jun 27, 2024