حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ میثاقِ معیشت کے بغیر ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے، عوامی مفاد کے لئے اپوزیشن ہمارے ساتھ بیٹھے، معیشت اور نیب ساتھ نہیں چل سکتے۔ نیب کو ختم کرنا ہو گا، گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام کو ہمارے سیاسی اختلافات سے کوئی غرض نہیں۔ اصل مسائل معاشی بحران، غربت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہیں۔ صوبے غریبوں کو مفت سولر پینل دیں اور سیلز ٹیکس جمع کرنے کا اختیار صوبوں کو دیا جائے۔
یہ امر واقع ہے کہ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل نے عام آدمی کو عملاً زندہ درگور کر دیا ہے جن کے لئے اپنے وسائل میں یوٹیلٹی بلز ادا کرنا تو کجا، اپنے گھر کا چرچہ پورا کرنا اور آبرو مندی کے ساتھ زندہ رہنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ انہیں یقینا سیاستدانوں کی ذاتی لڑائیوں سے کوئی سروکار نہیں مگر وہ اپنے منتخب نمائندگان سے منتخب ایوانوں میں اپنے روٹی روزگار کے مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھانے اور یہ مسائل حل کرنے کے لئے کردار ادا کرنے کی توقع ضرور رکھتے ہیں ۔ میثاقِ معیشت بھی بنیادی طور پر اچھی حکمرانی اور سسٹم کی بقاء و استحکام کے لئے سیاستدانوں کی ہی ضرورت ہے جس کے لئے پہلے رضاربانی اور پھر میاں شہباز شریف بھی قومی سیاسی قیادتوں پر زور دے چکے ہیں اور میثاق معیشت کے لئے قومی سیاسی قیادتوں میں متعدد بار ڈائیلاگ بھی ہو چکے ہیں مگر یہ مسائل میں گھرے عوام کو محض طفل تسلی دینے والی بات ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی لازمی شرائط کی موجودگی میں میثاقِ معیشت بھی ملک، عوام اور معیشت کی حالت سنوارنے کے معاملہ میں کارآمد نہیں ہو سکتا ۔ اگر ملک کی معیشت کو مستحکم بنانا مقصود ہے تو اس کے لئے حکمران اشرافیہ طبقات خود قربانی دے کر قومی خزانے سے لی جانے والی اپنی مراعات اور سہولتیں واپس کر دیں اور عوام کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔ عوام کو توقع تو یہی تھی کہ موجودہ حکومت ان کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے عوام دوست بجٹ لا کر انہیں بالخصوص مہنگائی میں خاطر خواہ ریلیف دے گی مگر وفاقی بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع عوام پر جس کثیر تعداد میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس لاگو کئے جا رہے ہیں اس کی بنیاد پر تو عوام مزید اقتصادی بوجھ تلے دب جائیں گے چنانچہ ان کی جانب سے حکومت کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار بھی فطری امر ہو گا۔ حکومتی اور اپوزیشن قائدین بے شک میثاق معیشت پر اتفاقِ کریں اور اس کی بنیاد پر ملکی معیشت کے استحکام کی مستقل اور جامع منصوبہ بندی بھی کریں مگر فوری اور اصل کام ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کی تصویر بنے بیٹھے عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینے کا ہے۔ اگر اس کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی موثر اور عملی قدم نہ اٹھایا گیا تو آزاد کشمیر کے عوام کی طرح پاکستان کے عوام بھی تہیۂ طوفان کئے بیٹھے نظر آ رہے۔ آج اگر ایک افریقی ملک کینیا کے عوام ٹیکسوں میں اضافہ کے خلاف اپنی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے کے ساتھ ساتھ کئی عمارات بھی نذر آتش کر چکے ہیں تو یہاں بھی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے عوام احتجاج کا ایسا ہی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔