گرمی کی شدت غزہ کے حالات کو خراب تر کر رہی ہے جہاں 2.3 ملین باشندوں میں سے تقریبا تمام اسرائیل کی فوجی مہم کی وجہ سے بے گھر ہیں اور جہاں بجلی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے اور صاف پانی تو بہت ہی کم ہے۔خیموں میں رہنے والے، اقوامِ متحدہ کے سکولوں میں پُرہجوم پناہ گاہوں میں یا نجی گھروں میں پھنسے ہوئے خاندانوں اور لوگوں کو غذائی قلت اور بڑھتی ہوئی بیماریوں کے ساتھ موسم گرما کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کا سامنا ہے اور وہ کسی اے سی، پنکھے، غسل کرنے یا صحت کے فعال نظام کے بغیر رہنے پر مجبور ہیں۔جنوبی غزہ کی پٹی کے خان یونس میں سکول کے ایک کمرۂ جماعت کو مختلف خاندان مل کر پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ وہاں ایک 38 سالہ ماں عمل ناصر کو یہ فکر لاحق ہے کہ بڑھتی ہوئی گرمی اور نمی اور مچھروں اور دیگر حشرات کی تعداد میں اضافے سے ان کی صحت کو نقصان پہنچےگا۔ان کا بیٹا سو نہیں سکتا اور اسے ٹھنڈک پہنچانے کے لیے ان کے پاس گتے سے بنے دستی پنکھے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس خاندان کا گھر شمالی غزہ کی پٹی میں بیت حانون میں تھا جہاں سے وہ تنازعے کی ابتدا میں ہی بھاگ آئے تھے۔انہوں نے کہا، "میرے بیٹے کا جسم بہت گرم ہے۔ پہلے میں اسے دھو دیتی تھی لیکن مجھے پانی کی ضرورت ہے۔ میں اپنے شوہر کی صحت کے بارے میں بھی بہت پریشان ہوں۔ پانی لے جانے کی وجہ سے ان کا وزن آدھا رہ گیا ہے۔"اس ہفتے غزہ میں درجۂ حرارت 30 ڈگری سیلسیس (90 ڈگری فارن ہائیٹ) سے زیادہ رہنے کی پیش گوئی ہے اور حالیہ برسوں میں جب موسمِ گرما آتا ہے تو بحیرۂ روم میں گرمی کی مہلک لہروں کا ایک سلسلہ ساتھ لاتا ہے۔غزہ کی بجلی زیادہ تر اسرائیل سے فراہم کی جاتی تھی لیکن جنگ شروع ہوتے ہی علاقے کی بجلی منقطع کر دی گئی اور ساتھ ہی واحد بجلی گھر کے لیے ایندھن بھی۔ پرائیویٹ جنریٹرز کی فراہمی کے لیے ڈیزل جلد ہی ختم ہو گیا۔عمل ناصر نے کہا، "حشرات اور مچھر رات بھر ہمیں کاٹتے رہتے ہیں۔ میں سوتی نہیں ہوں تاکہ اپنے بچے پر کریم یا کسی قسم کا مرہم لگا سکوں تاکہ اسے مچھر نہ کاٹیں۔ وہ ساری رات خارش کرتے رہتے ہیں۔