براعظم جنوبی امریکا کے ملک بولیویا میں پولیس نے بدھ کی شب فوج کے سربراہ جنرل خوان خوسے زونیگا کو گرفتار کر لیا۔ اس سے قبل صدر لوئس آرسے نے ناکام فوجی بغاوت کی کوشش پر زونیگا کو برطرف کر دیا تھا۔ بدھ کے روز زونیگا کی قیادت میں فوج کے اہل کاروں نے صدارتی محل پر دھاوا بولنے کی کوشش کی۔ اس کا مقصد ملک میں "جمہوریت کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو" تھا۔ فوجی سربراہ کے اس اقدام کی علاقائی اور بین الاقوامی طور پر وسیع مذمت کی جا رہی ہے۔بولیویا کے سرکاری ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے مناظر میں پولیس اہل کاروں کو جنرل زونیگا کو اس وقت حراست میں لیتے ہوئے دیکھا گیا جب وہ دار الحکومت میں ایک فوجی بیرک کے سمنے صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔برطرف آرمی چیف کو پولیس مرکز منتقل کر دیا گیا تاہم استغاثہ نے ابھی تک ان پر عائد الزام کا تعین نہیں کیا ہے یاد رہے کہ جنرل زونیگا کے زیر قیادت فوجی دستوں نے بدھ کے روز دن کے اوقات میں صدارتی محل کی جانب آنے والے راستوں کو بند کر دیا تھا۔صدر لوئس آرسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" پر اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ بولیویا کی فوج کے مخصوص یونٹوں کی بے قاعدہ کارروائی ہے"۔صدر نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے زور دیا کہ "جمہوریت کا احترام کیا جانا چاہیےصدارتی محل کے اطراف باغی فوجیوں کی موجودگی کے دوران میں ایک بکتر بند گاڑی کو محل کا آہنی دروازہ توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس موقع پر فوجیوں اور آٹھ فوجی ٹینکوں کے بیچ موجود جنرل زونیگا کا کہنا تھا کہ "مسلح افواج جمہوریت کے ڈھانچے کی تشکیل نو کی کوشش کر رہی ہیں تا کہ اسے حقیقی جمہوریت بنایا جا سکے ، ان بعض سربراہوں کی جمہوریت نہیں جو 30 ، 40 برسوں سے ملک چلا رہے ہیں"۔بنا اجازت فوجی یونٹوں کے حرکت میں آنے پر صدر لوئس آرسے نے قوم کے نام اپنے وڈیو پیغام میں کہا کہ "جمہوریت کے مفاد میں انقلاب کے خلاف خود کو منظم کرنے کے لیے ہمیں بولیویا کے عوام کی ضرورت ہے"۔صدر کی جانب سے آرمی چیف کو بر طرف کرنے اور نئی فوجی قیادت کے تقرر کے بعد جلد نئے عسکری سربراہان نے صدارتی محل میں اپنے منصبوں کا حلف اٹھایا۔ اس کے بعد بدھ کی شام باغی فوجی دستے صدارتی محل کے اطراف سے چلے گئے۔ اس موقع پر صدر آرسے نے محل کی بالکونی میں آ کر اپنے سیکڑوں حامیوں کے سامنے خوشی کا اظہار کیا جو فوجی بغاوت کی خبر سن کر علاقے میں جمع ہو گئے تھے۔واضح رہے کہ منگل کے روز سے اس طرح کی افواہیں گردش میں تھیں کہ آرمی چیف جنرل زونیگا کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کے سبب برطرف کیا جا سکتا ہے۔ وہ نومبر 2022 سے اس عہدے پر فائز تھے۔ان افواہوں کے مطابق جنرل زونیگا کو سابق صدر ایوو مورالس کے خلاف بیان دینے کی پاداش میں برطرف کیا گیا۔ واضح رہے کہ مورالس موجودہ صدر کے حلیف تھے تاہم اب وہ 2025 میں مقررہ صدارتی انتخابات کی مہم میں آرسے کے سب سے بڑے سیاسی حریف ہیں۔جنرل زونیگا نے کہا تھا کہ "قانونی جانب سے مورالس نا اہل ہیں اور ان کے اس ملک کے صدر بننے کا امکان نہیں رہا ... فوج اس ملک کا مسلح بازو ہے اور ہم آئین کا دفاع کریں گے خواہ اس کی جو قیمت ادا کرنی پڑے"۔ایوو مورالس 2006 سے 2019 تک بولیویا کے صدر رہ چکے ہیں۔ اس دوران 2009 اور 2014 میں وہ دوبارہ منتخب ہوئے تھے۔ سال 2019 میں عوامی اضطراب اور انتخابات میں جعل سازی کے الزامات کے بیچ انہوں نے صدارت کے منصب سے استعفا دے دیا تھا۔دوسری جانب ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے کہا ہے کہ ان کا ملک بولیویا میں فوجی اقدامات کی شدید مذمت کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" پر ان کا کہنا تھا کہ "ہم بولیویا کی حکومت اور عوام کے لیے اپنی حمایت اور یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں اور ساتھ ہی جمہوریت کے احترام اور قانون کی بالادستی پر زور دیتے ہیں"۔واشنگٹن میں امریکی قومی سلامتی کی کونسل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکا بولیویا کی صورت حال کا قریب سے جائزہ لے رہا ہے اور تمام فریقوں کو پر سکون رہنے پر زور دیتا ہے۔اس کے علاوہ چلی ، ایل ایکواڈور، پیرو، میکسیکو، کولمبیا، برازیل اور وینزویلا نے بھی بولیویا میں جمہوریت کے احترام کا مطالبہ کیا ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بولیویا میں حالات و واقعات پر اپنی "گہری تشویش" کا اظہار کیا ہے۔