پاکستان کو معرض وجود میں آئے ساڑھے چھ دہائیاں گزر گئیں لیکن ہمارے ہاں ابھی تک تحریک پاکستان اور قائداعظمؒ کی قیادت کے حوالے سے بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ ویسے یہ انہونی بات نہیں، ہندوستان میں بھی تحریک آزادی، نہرو اور گاندھی کی شخصیات کے بارے میں نت نئی باتیں لکھی جا رہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہندوستان میں کوئی دانشور یا لکھاری آزادی پر اعتراض نہیں کرتا جبکہ پاکستان میں ایک چھوٹا سا ایسا حلقہ موجود ہے جو قیام پاکستان کا مخالف ہے اور ان کا خیال ہے کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہئے تھا چنانچہ یہ لوگ بہانے بہانے تحریک پاکستان کے محرکات پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور قائداعظم کے حوالے سے شکوک وشبہات پھیلاتے رہتے ہیں۔ ہمارے بعض تیز رفتار مہربان تو اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ وہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد ہی سے تسلیم نہیں کرتے اور فرماتے ہیں کہ پاکستان فقط مسلمانوں کیلئے نوکریوں کا بندوبست کرنے اور مسلمانوں کے کاروباری تحفظات وغیرہ وغیرہ کےلئے حاصل کیا گیا تھا۔ میں نے تحریک پاکستان نہیں دیکھی لیکن میں ان روشن خیالوں کی تحریریں اور گفتگو سن کر سوچنے لگتا ہوں کہ کیا عالمی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت محض نوکریوں اور معاشی مفادات کیلئے ہوئی تھی جبکہ بعض مصنفین اسے ہجرت مدینہ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ دونوں ہجرتوں میں مشترک قدریں بہت سی ہیں۔ کیا لاکھوں عصمتیں اسلئے لٹیں‘ لاکھوں گھر اسلئے جلے اور لاکھوں لوگ اسلئے شہید ہوئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نوکریوں اور کاروباری مفادات کو خطرہ تھا؟ خدا کا خوف کرو بھائی، اتنی عظیم قربانی، اتنی عظیم تحریک، اتنے عظیم جذبے، اتنی عظیم منزل اور اتنی عظیم قیادت کی قدرو قیمت اتنی نہ گھٹاﺅ کہ اسے معاشی مفادات کے تابع کر دو۔ کیا لاکھوں لوگ اپنے آبائی گھروں کو اور اپنے آبائی اجداد کی قبروں کو محض نوکریوں اور معاشی آزادی کےلئے چھوڑ کر پاکستان آئے تھے؟ یہ تو کوئی بڑا ہی عظیم جذبہ تھا جس کےلئے لوگوں نے اتنی قربانیاں دیں، اتنا ایثار کیا جس کی تاریخ عالم میں مثالیں خال خال ملتی ہیں۔ یاد کرو شاہ ولی اللہ دہلوی کے خطوط جو انہوں نے ہندوستان کے مسلمان ریاستی حکمرانوں اور طاقتوروں کو لکھے تھے۔ یہ خطوط اس وقت لکھے گئے جب ہندوستان میں مغل حکومت کے زوال کے بعد مسلمانوں کے وجود کو بے پناہ خطرات لاحق تھے اور سکھ اور مرہٹے مسلمان نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ میں مصروف تھے۔ ان خطوط کے بنیادی نکتے پر غور کرو کیونکہ یہ سترہویں صدی کا قصہ ہے اور آج اسکا تصور کرنا بھی محال ہے۔ بنیادی پیغام فقط یہ تھا کہ ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی بقا کےلئے مسلمانوں کا کسی نہ کسی حصے میں برسراقتدار رہنا ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ مسلمان اگر ہندوستان کے کسی بھی علاقے میں حکمران ہونگے تو وہ سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کےلئے باعث تقویت ہونگے۔ اسی جذبے کے تحت شاہ عبدالعزیز، سید احمد شہید شاہ اسماعیل شہید کی سربراہی میں جہاد کی تحریک شروع کی گئی۔ اگر یہ تحریک اپنوں کے ہاتھوں صوبہ سرحد میں ختم نہ کر دی جاتی تو اس کا اگلا ہدف پنجاب تھا جہاں رنجیت سنگھ نے مسلمانوں کو محکوم بنا کر ان پر مذہبی آزادی کا ناطقہ بند کر رکھا تھا حتیٰ کہ مساجد میں اذان کی آزادی بھی چھین لی گئی تھی اور شاہی مسجد لاہور کو اصطبل میں بدل دیا گیا تھا۔ ”ہے جرم ضعیفی کی سزا، مرگ مفاجات“ بہر حال شاہ ولی اللہ کے خانوادے کی سربراہی میں شروع کی گئی تحریک جہاد نے انگریزوں کو بھی نکانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا لیکن اپنوں کی غداری نے اس کا شعلہ بجھا دیا۔1757ءمیں بنگال میں سراج الدولہ کی شکست، 1799ءمیں ٹیپو کی شہادت اور 1731 میں سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید کی سربراہی میں شروع کئے گئے جہاد کا بالا کوٹ کے مقام پر ایک صدی کے بعد 1831ءمیں خاتمہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں کیونکہ ان سب کی شکست اپنوں کی غداری کا شرمناک کارنامہ تھا۔ میر جعفر نے پلاسی کے میدان میں انگریزوں کے ساتھ مل کر غداری کر کے مسلمانوں کو بنگال کی حکمرانی سے محروم کر دیا۔ میر صادق نے ٹیپو سے غداری کر کے میسور کی سلطنت کو انگریزوں کی غلامی میں دے دیا اور یار محمد اور سلطان محمد نے رنجیت سنگھ کیساتھ مل کر مجاہدین سے بالا کوٹ کے مقام پر غداری کر کے تحریک جہاد کی شمع گل کر دی۔ چند ہزار انگریزوں نے مسلمانوں کے غداروں کی خدمات سے فائدہ اٹھا کر ہندوستان کی مسلمان حکومتوں کو سرنگوں کر لیا اور انہیں یوں اپنے شکنجے میں جکڑا کہ ایک طویل جدوجہد کے باوجود اس شکنجے کو توڑنے میں تقریباً دو صدیاں صرف ہو گئیں۔ حیرت ہے کہ اس تمام عرصے میں ہندوﺅں کی جدوجہد آزادی کا کہیں ذکر نہیں ملتا کیونکہ انہیں مسلمانوں کے تسلط سے نجات پانے کےلئے انگریز قبول تھے۔ ویسے اگر دوسری جنگ عظیم انگلستان کو ہر لحاظ سے کمزور نہ کر دیتی اور امریکہ آزادی کا علمبردار بن کر نمودار نہ ہوتا تو شاید انگریز اتنی جلدی ہندوستان سے پسپا نہ ہوتے۔ پسپا تو ان کو ہونا تھا، قیام پاکستان ناگزیر تھا لیکن شاید مزید عرصہ لگ جاتا۔ کبھی فرصت ملے تو علامہ اقبال کے وہ خطوط ضرور پڑھ لیجئے جو انہوں نے 1936-37 میں قائداعظم کو لکھے اور قائداعظم کی فکری رہنمائی کا حق ادا کیا۔ ان دنوں علامہ شدید بیمار تھے اور 1937 کے بعد تو انہوں نے کسی سے لکھوائے کیونکہ انکی نظر کمزور ہو چکی تھی البتہ نظر کی کمزور اور علالت نے انکی بصیرت اور قومی درد پر ہرگز اثر انداز نہ ہو سکی کیونکہ ان خطوط کے الفاظ تشویش، درد مندی اور بصیرت کی روشنی سے مالامال نظر آتے ہیں علامہ نے تحریک پاکستان کے سارے محرکات اور مسلمانوں کے معاشی مستقبل پر بھی روشنی ڈالی ہے کیونکہ قوموں کی زندگی میں معاشی خوشحالی کلیدی حیثیت رکھتی ہے لیکن اپنے خطوط میں قائداعظم کو ایک واضح پیغام دیا ہے۔ اس پیغام کی ایک ہلکی سی جھلک ان الفاظ میں ملتی ہے پڑھئے اور غور کیجئے۔ترجمہ : ”دنیا کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اگرچہ ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے معاشی مسئلہ اہم ہے لیکن ان کےلئے ثقافتی (کلچرل) مسئلہ اس سے کہیں زیادہ اہم اور نتیجہ خیز ہے“ (خط مورخہ 20 مارچ 1937) آپ سمجھتے ہیں کہ کلچر اور ثقافت کے سوتے دین سے پھوٹتے ہیں اور کلچر محض رسومات، عادات کا ہی مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ ذہنی سوچ اور قلبی رویوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ علامہ کے ان الفاظ کی بصیرت سمجھنی ہو تو بھارت جائیے اور مسلمانوں کی ثقافتی زندگی کا بغور مطالعہ کیجئے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے قرارداد پاکستان (لاہور) مارچ 1940 میں صدارتی خطبے کے دوران مسلمان ثقافت اور ہندو ثقافت کے نمایاں تضادات پر زور دیا تھا۔ وقت نکال کر علامہ اقبال کا خط مورخہ 28 مئی 1937ءبھی پڑھ لیجئے جس میں وہ قائداعظم کو لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل اور وسیلہ روز گار کا علاج شریعت میں موجود ہے لیکن جب تک ہمارے پاس آزاد ملک موجود نہ ہو ہم شریعت نافذ نہیں کر سکتے۔خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبال کے اس فقرے پر غور کیجئے اسلام کو بحیثیت ایک قدرتی قوت کے زندہ رکھنے کےلئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کر سکے۔ یاد کیجئے جب مولانا حسین احمد مدنی نے کہا تھا کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں تو علامہ نے جواب دیا تھا کہ قومیں اوطان سے نہیں مذہب سے پہچانی جاتی ہیں۔ وقت ملے تو علامہ کا مولانا حسین احمد مدنی کو جواب ارمغان حجاز میں ضرور پڑھ لیں۔ مختصر یہ کہ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101 بار اور قیام پاکستان کے بعد چودہ مرتبہ کہا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کی جائے گی۔ فروری1948 کو امریکی عوام کے نام براڈ کاسٹ میں قائداعظم نے پاکستان کو پریمئر اسلامی ریاست قرار دیا ان کے سینکڑوں فقروں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے لیکن کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ساری رام کہانی لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان محض اور صرف معاشی مفادات کے حصول کےلئے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ اسے مسلمانوں کی ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کےلئے حاصل کیا گیا تھا۔