اچھے کھیل کیلئے، اچھے فیصلے کیجئے

جنوبی افریقہ سے ون ڈے اور ٹیسٹ سیریز میں ناکامی کے بعد قومی کرکٹ ٹیم وطن واپس پہنچ چکی ہے۔ اس دورے میں پاکستان نے مجموعی طور پر نو انٹرنیشنل میچز میں سے ہمارے کھلاڑی صرف تین میچ ہی جیتنے میں کامیاب ہو سکے۔ میزبان ٹیم نے تین ٹیسٹ اور تین ون ڈے میچوں میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستانی کھلاڑی کھیل کے ہر شعبے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ بیٹنگ‘ با¶لنگ اور فیلڈنگ میں بھی اچھا تاثر نہ چھوڑ سکے۔ انفرادی طور پر چند ایک کھلاڑیوں نے کبھی کبھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ ضرور کیا تاہم کھلاڑی ایک ٹیم کی صورت میں کھیلنے میں ناکام رہے۔ کھلاڑی اپنی جگہ پر ناکام نظر آئے تو ٹیم انتظامیہ ٹورنگ سلیکشن کمیٹی اور کوچنگ سٹاف بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا۔ منصوبہ بندی کا فقدان نظر آیا۔ جو غلطیاں ٹیسٹ سیریز میں ہوئیں، ایک روزہ میچوں میں بھی انہیں دہرایا گیا۔ گیارہ کھلاڑیوں کے حوالے سے کی جانے والی مسلسل غلطیاں نشاندہی کرتی ہیں کہ معاملات درست انداز میں نہیں چلائے جا رہے۔ گیارہ کھلاڑیوں کے انتخاب کے معاملے میں یا تو ذاتی پسند ناپسند سے کام لیا جاتا رہا ہے یا پھر اختلافات ہیں یا پھر اندرونی و بیرونی دبا¶ والا معاملہ ہے۔ عمر اکمل کو ایک بھی میچ نہیں کھلایا گیا، اسد شفیق جیسے باصلاحیت بلے باز کو بھی سیاحتی کھلاڑی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ مصباح الحق بحیثیت کپتان اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔ ایک طرف اے بی ڈو یلیئرز اپنی کارکردگی کے ساتھی کھلاڑیوں کے لئے مثال قائم کر رہے تھے اور نوجوان کھلاڑیوں کو بھی بھرپور مواقع دے رہے تھے تو دوسری طرف ہمارے کیمپ میں خوف کے سائے اتنے گہرے تھے کہ ہم نے آزمائے ہوئے کھلاڑیوں پر ہی بھروسہ کیا اور مسلسل ناکامیوں کے باوجود انہیں ہی کھلاتے چلے گئے۔
جنوبی افریقہ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد سینئر کھلاڑیوں پر ہر طرف سے تنقید ہورہی ہے۔ راشد لطیف کا کہنا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے بعد یونس خان اور شاہد آفریدی کو ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دینا چاہئے۔ معین خان کے مطابق مصباح الحق اگر ایک روزہ میچوں میں نمبر تین پر نہیں کھیلتے تو ان کی بھی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔ عامر نذیر کا کہنا ہے کہ شاہد آفریدی‘ یونس اور مصباح کی جگہ نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دینا چاہئے۔ سرفراز نواز بھی سینئر کھلاڑیوں کو ڈراپ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ظہیر عباس کا کہنا ہے کہ ہمارے بلے بازوں کو وکٹ پر ٹھہرنے کا ہنر سیکھنا چاہئے۔ وقار یونس کہتے ہیں کہ ایسے کھلاڑیوں کے ساتھ ہم جیت نہیں سکتے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف کارکردگی نے کئی ایک کھلاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ کر دیا ہے۔ کھلاڑی کی کارکردگی کا سب سے بڑا جج 70 گز کی با¶نڈری ہوتی ہے۔ جس میں کچھ چھپایا نہیں جا سکتا نہ ہی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ گرا¶نڈ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری کیلئے دلیرانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ایک میچ کی کارکردگی کی بنیاد پر 20,20 میچ کھیلنے والوں‘ آدھے با¶لر اور آدھے بلے بازوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ہم کب تک ایک ہی ٹیم میں تین تین آف سپنر اور ایک ہی جیسے کھلاڑیوں کو شامل کرتے رہیں گے۔ کب تک ریگولر بلے بازوں اور با¶لرز کو نام نہاد آل را¶نڈرز کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے؟ ایک مضبوط ٹیم کی تشکیل کیلئے ہمیں مصلحتوں سے آزاد ہونا ہو گا۔ بڑے ناموں کی بجائے اچھے کھلاڑیوں کا انتخاب ہی ہماری کرکٹ میں دلچسپی پیدا کر سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...