ذُوالفقار علی بھٹو، نے جون1966ءمیں وزارتِ خارجہ چھوڑی۔ 30نومبر1967ءکو پاکستان پیپلز پارٹی بنائی اور دسمبر 1970ءمیں ہونے والے عام انتخابات میں اُن کی قیادت میں، پاکستان پیپلز پارٹی نے بھرپور حِصّہ لِیا۔ جون 1966ءسے دسمبر1970ءتک (ساڑھے چار سال کے عرصہ میں) بھٹو صاحب نے، بے شمار عوامی جلسوںسے خطاب کِیا اور اُن کی قیادت میں جلوس بھی نکالے گئے، اِس دوران بھٹو صاحب کے جلسوں اور جلوسوں پر اس وقت کی حکومت اور مخالف سیاستدانوں نے، لاتعداد حملے کرائے، لیکن بھٹو صاحب اور اُن کے ساتھیوں نے، ہر موقع پربہادری کا ثبوت دِیا۔ پِیر صاحب پگاڑا دوم، سیّد علی مردان شاہ کے حُرّوں کی طرف سے (مبیّنہ طور پر) سانگھڑ میں، بھٹو صاحب کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے قافلے پر حملہ ہُوا تو بھٹو صاحب گاڑی سے اُترے اور انہوں نے، سِینہ تا ن کر کہا کہ ”ظالمو! میں ذُوالفقار علی بھٹو ہوں۔ مجھے مارو! میرے عوام کو کیوں مارتے ہو؟“عام جلسوں اور جلوسوں میں، بیگم نُصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو پر حملے ہُوئے، پولیس کی لاٹھی سے بیگم بھٹو کا سر بھی پھٹ گیا لیکن دونوں خواتین خوفزدہ نہیں ہوئیں۔ بُلٹ پروف گاڑی میں بیٹھنے کا رواج، بعدمیں (دہشت گردی میں، شِدّت اختیار کرنے کے بعد) ہُوا لیکن اِس کے باوجود محترمہ کو قتل کر دیا گیا اور اُن کی بُلٹ پروف گاڑی میں سوار، پارٹی کے دوسرے راہنما بچ گئے ۔ رحمٰن ملک کی قیادت میں، کچھ لوگوں نے بھاگ کر جان بچا لی۔ اِس سے یہ اٹل حقیقت پھِرسامنے آئی کہ ”موت کا ایک دِن معیّن ہے“ اور کِس انسان کی موت کب آئے گی؟.... اُسے نہیں معلوم؟ سوائے علّامہ طاہر اُلقادری کے، کہ اُن کا دعویٰ ہے کہ”خود سرکارِ دوعالم نے، خواب میں مجھے بشارت دی ہے کہ میری عُمر آپ کی عُمر کے برابر 63 سال ہو گی“۔ اگرعلّامہ القادری کا بیان سچ ہے تو موصوف، 19فروری 2014ءکے بعد اِس دارِفانی میں نہیں ہوں گے۔ سرکارِ دوعالم کی طرف سے دی جانے والی گارنٹی کے باوجود، علّامہ القادری، بُلٹ پروف کیبن اور بُلٹ پروف کنٹینر میں تشریف رکھ کر، عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہُوئے سمندر سے خطاب کرتے ہیں۔ صدر زرداری، خود کو”بھٹو صاحب کا رُوحانی فرزند“ کہتے ہیں لیکن وہ جان بچانے کے معاملے میں، بھٹو صاحب کے بجائے، علّامہ طاہر اُلقادری سے متاثر ہیں۔ ”جان ہے تو جہان ہے پیارے“ کے زریں اصول پر عمل کرتے ہُوئے انہوں نے بھی ”تخت لہور“ فتح کرنے کے لئے ”بم پروف محل“ تعمیر کرا لِیا ہے۔ بلاول زرداری، جن کے نام کے ساتھ ( محترمہ کے قتل کے بعد) ”بھٹو“ کا لاحقہ لگایا گیا اور چیئرمین پیپلز پارٹی ”منتخب“ کِیا گیا، اب پارٹی کے سرپرست ِ اعلیٰ بن چکے ہیں ۔ پارٹی کے چیئرمین کا عُہدہ خالی ہو گیا ہے اور جناب زرداری نے شریک چیئرمین کا عُہدہ بھی چھوڑ دِیا ہے ۔ سِکھوں کے دسویں گُرو، گُرو گوبند سنگھ جی کے قتل ( 7اکتوبر1708ئ) کے بعد سِکھوں نے اپنی مقدّس کتاب ”گرنتھ صاحب“۔ کو ہی (تا قیامت) گُرو تسلیم کر لِیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ، پاکستان پیپلز پارٹی، کے 30نومبر 1967ءکو، بھٹو صاحب کی چیئرمین شِپ میںمنظور کئے گئے منشورکو ہی، مستقل طور پر پارٹی کا چیئر مین بنا لیا جائے۔ پیپلز پارٹی کی انتخابی مُہم بلاول بھٹو زرداری اور اُن کی (اور اُن کی دونوں بہنوں کی سرپرست) محترمہ فریال تالپور چلائیں گی۔ انتخابی مُہم کا آغاز 4اپریل کو، بھٹو صاحب کی برسی کے موقع پر (گڑھی خُدا بخش سے ، اُن کے مزار سے) ہو گا۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر، میاں منظور احمد وٹو وزیرِاعلیٰ تھے تو اسی دوران اُن کے والد میاں جہانگیر احمد وٹو انتقال کر گئے۔ میاں جہانگیر احمد وٹو قادیانی تھے۔ وزیر اعلیٰ وٹو نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ قادیانی نہیں ہیں، اپنے والد صاحب کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ جنابِ آصف زرداری نے اپنے ”رُوحانی والد“ ذُوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کی شریک چیئرمین شپ چھوڑ دی لیکن صدارت کا منصب نہیں چھوڑا ، جِس طرح علّامہ طاہر القادری ، کینیڈا کی شہریت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ خبروں کے مطابق، چونکہ جان کو خطرہ ہے، لہٰذاپیپلز پارٹی کے سرپرستِ اعلیٰ اور بقو ل صدر زرداری، نئی نسل کے لیڈر، بلاول بھٹو زرداری، انتخابی مُہم کے دوران زیادہ تر ٹیلی فونِک خطاب کریں گے، قائدِ تحریک الطاف حسین کی طرح جو اپنی جان کو خطرہ سمجھ کر پاکستان واپس نہیں آتے۔ اُدھر تازہ تازہ سابق ہونے والے وزیرِاعظم، راجا پرویز اشرف نے نہ صِرف اپنے لئے بلکہ جناب یوسف رضا گیلانی کے لئے بھی سرکاری خرچ پر، تاحیات سکیورٹی مانگ لی ہے یعنی ”ونڈی دی کھیر“ کی طرح کہ.... ”مَینوں وی دے تے میرے بھرا نُوں وی دے “۔ راجا صاحب چاہتے ہیں کہ اُن کی اور گیلانی صاحب کی تاحیات حفاظت کے لئے، دو ایس۔ پی، چار ڈی۔ ایس۔ پی اور 150 کانسٹیبل مہیا کئے جائیں جِس پر قومی خزانے سے، 30کروڑ روپے سالانہ خرچ ہوں گے“۔ ایک سابق وزیرِاعظم جناب شوکت عزیز تو خیر پاکستان سے باہر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ راجا صاحب کو، پاکستان میں موجود، دو سابق وزرائے اعظم، مِیر ظفر اللہ جمالی اور چودھری شجاعت حسین کی تاحیات حفاظت کا خیال کیوں نہیں آیا؟ جمالی صاحب اور چودھری صاحب کِتنے سادہ ہیں کہ موت سے نہیں ڈرتے ، ورنہ اگر صدر جنرل پرویز مشرف سے درخواست کرتے تو، اُن کے لیے اپنی تاحیات سکیورٹی حاصل کرنا مُشکل نہیں تھا۔ بادشاہوں، فوجی آمروں اور جمہوری قائدِین کی، اپنے محافظوں کے ہاتھوں قتل کی سینکڑوں کہانیاں عالمی تاریخ میں درج ہیں، چند ایک نذر قارئین ہیں۔ ایران کا بادشاہ نادر شاہ دُرّانی (جِسے ایک عظیم فاتح ہونے کی وجہ سے، ایران کا نیپولین اور سکندراعظم ثانی کہا جاتا تھا) 19جون1747ءکو اپنے محافظوں کے ہاتھوں قتل ہُوا تھا۔ اور ہاں! راجا پرویز اشرف صاحب! اپنے دامادوں کو ضرورت سے زیادہ مراعات دینے والوں کے لئے درسِ عبرت ہے کہ، ہندوستان کے بادشاہ جلال اُلدّین خلجی (1290ءتا1296ئ) کو قتل کر کے، اُس کا داماد اور بھتیجا علاﺅ الُدّین خلجی خود بادشاہ بن گیا تھا۔ بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمٰن کو، ان کے گھر پر، ٹینکوں سے چڑھائی کر کے، 15 اگست 1975ءکو، بنگلہ دیشی فوج کے جونیئر فوجی افسروں نے موت کے گھاٹ اتار دِیا تھا۔ بھارتی وزیرِاعظم مسز اندرا گاندھی 31 اکتوبر 1984ءکو اپنے سِکھ محافظوں ستونت سنگھ اور بے انت سنگھ کے ہاتھوں قتل ہوئیں اور 4جنوری2011ءکو اسلام آباد میںپاکستان پیپلز پارٹی کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو، اُ نہی کے ایک محافظ، ملک ممتاز قادری نے قتل کردِیا تھا۔اِس کا مطلب یہ ہوا کہ موت تو محافظوں کے ہاتھوں بھی آجاتی ہے، پھِرغریب مُلک کے قومی خزانے سے، 30کروڑ روپے سالانہ خرچ کرانے سے کیا فائدہ؟ مُغلیہ خاندان کے زوال کے دَور میں، فوجی جرنیل پالکیوں میں بیٹھ کر رسماً، میدان جنگ میں جایا کرتے تھے۔ کیا ”ہم شہادتوں سے نہیں ڈرتے!“ قِسم کی بڑھکیں مارنے والے،ذُوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے، سارے جانشین موت کے خوف میں مبتلا ہیںاوراپنی مفروضہ یا ممکنہ، شہادتوں سے ڈر گئے....؟