بڑے شہروں سے دور ایک تعلیمی جنت

گجرات سے بھی آگے ایک گاﺅں جنڈالہ کی طرف جا رہے تھے۔ وہاں ایک بہت شاندار سکول ہے جس کا نام سی بی اے ڈگری کالج ہے۔ میرا ہمسفر ایک بہت اچھی عادات والا نوجوان احمد تھا۔ ہمسفر رہنما بھی ہوتا ہے۔ عمران خان نے نوجوانوں کو آج کی سیاست میں لیڈر بنا دیا ہے۔ احمد کا لیڈر عمران خان تھا۔ عمران کے لیڈر نوجوان ہیں۔ علامہ اقبال نے کسی ایسے ہی لمحے میں یہ دعا کی تھی جب برصغیر کے نوجوان قائداعظم کے آس پاس جمع ہو رہے تھے
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
وہ 23 مارچ کا دن تھا اور ہم وہاں جا رہے تھے جہاں عمران خان بھی جا چکے ہیں۔ بڑے شہروں سے دور ویرانی کو حیرانی میں بدل دینا انوکھے جذبے والوں کا کام ہے۔ ویرانی اور وسعت میں بھی کوئی فرق نہیں۔ جب کوئی نگاہ والا آدمی دیکھتا ہے تو دوریاں اپنائیت سے بھر جاتی ہیں۔
اس کھلی جگہوں کی طرح کے کشادہ سکول میں عمران خان آیا تھا۔ آج میں وہاں جا رہا تھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ عمران ایک مختلف آدمی ہے۔ ان کے علاوہ کوئی سیاستدان یہاں نہیں آیا۔ میں سیاستدانوں کو لیڈر نہیں مانتا۔ وہ صرف حکمران بننا چاہتے ہیں اور حکمران لیڈر نہیں ہوتا۔ اگر لیڈر حکمران بن جائے تو قسمت بدل جاتی ہے۔ یہاں بہت بڑا لیڈر قائداعظم گزرا تھا یہاں سے بھمبر آزاد کشمیر چند کلومیٹر دور ہے۔ وہ یہاں کی وسعتیں دیکھ کر کچھ دیر کے لئے ٹھہرے اور کہا کہ یہاں ائر بیس بننا چاہئے وہ اب تک نہیں بنی۔ ہم نے پاکستان میں وہ نہیں بنایا جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا۔ میرے ساتھ اختلاف ہو سکتا ہے کہ قائداعظم کے بعد کوئی لیڈر پاکستان کو نہیں ملا۔ سب سیاستدان ہیں اور دوسرے درجے کے سیاستدان ہیں۔ کسی حد تک لیڈر تھا ذوالفقار علی بھٹو مگر وہ سیاستدانوں سے ہار گیا۔ اب عمران خان لیڈر بن سکتا ہے اگر سیاستدانوں سے اس نے خود کو بچا لیا۔ میں کہتا ہوں کہ صدر زرداری نے اپنے آپ کو ایک کامیاب اور شاطر سیاستدان منوا لیا ہے مگر وہ لیڈر بن ہی نہیں سکتا۔ اس ملک کے سیاستدانوں کو اتنی ضرورت نہیں جتنی ایک لیڈر کی ضرورت ہے یہ بات عمران خان میں کچھ کچھ ہے۔ وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے اور لوگ بھی۔ دونوں کا ایک ساتھ کامیاب ہونا ضروری ہے۔ میں یہ بات اس لئے کر رہا ہوں کہ عمران نے میانوالی میں ساتواں وعدہ کیا ہے کہ میں کالا باغ ڈیم بناﺅں گا۔ یہ جرات کوئی اور سیاستدان نہیں کر سکتا۔ جس نے یہ کام کر لیا وہی اس ملک کا لیڈر ہو گا۔ میں اس حوالے سے تفصیل کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں عمران کا نقاد بھی ہوں اور وہ مجھ سے خفا رہتا ہے۔ لیڈر وہ ہے جس کے لئے مدح اور مذمت برابر ہو جائے۔ جس دن کوئی تنقید پر بھی خوش ہوا جتنا تعریف سن کر خوش ہوتا ہے تو خوشیاں ہمار مقدر بن جائیں گی۔
میں تھوڑی دیر کے لئے خوش ہو گیا جب ہم جنڈالہ گاﺅں میں داخل ہوئے۔ ہمارے سارے دیہات ایسے ہو جائیں تو ہم بہت اچھے ملک کے مالک بن جائیں گے۔ چودھری ندیم نے اپنے گاﺅں میں یہ سکول بنا کے بہت بڑی معرکہ آرائی کی ہے۔ وہ خود امریکہ کا پڑھا ہوا ہے۔ اس کے چار بھائی اب بھی امریکہ میں ہیں۔ احمد اس کا بھتیجا ہے۔ وہ بھی امریکہ آتا جاتا رہتا ہے۔ حیرت ہے کہ سب بھائیوں کے بچے بچیاں اس کے پاس رہتے ہیں دونوں بہنوں کے بچے بچیاں بھی اس کے پاس ہیں۔ اس کا گھر ایک ہوسٹل کی طرح لگتا ہے۔ جب ہوسٹل اور گھر میں فرق مٹ جائے تو مزا آنے لگتا ہے۔ اس کی کچھ بھتیجیاں بھتیجے ڈاکٹر بن چکے ہیں احمد کی بہن نے اپنے لاہور میڈیکل کالج میں اول پوزیشن حاصل کی ہے۔ یہ سب بچے بچیاں سی بی اے سکول کالج جنڈالہ میں پڑھ کے گئی ہیں۔ آپ سوچیں کہ وہ تعلیمی ادارہ کیا ہو گا جہاں سے اپنے بچے بھی پڑھ کے اعلیٰ تعلیم کے لئے نکلتے ہوں۔
چودھری ندیم کا خیال ہے کہ وہ یہاں یونیورسٹی بنائیں گے اپنی لڑکیوں کے لئے ایک میڈیکل کالج بھی بنائیں گے۔ اس کے ساتھ ٹیچنگ ہسپتال بھی ہو گا۔ اتنا شاندار آسودہ کشادہ خوبصورت سکول دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ عمارت وہی عظیم الشان ہوتی ہے جس میں نئے اور پرانے سارے رنگ ہوں جو جدید و قدیم کا امتزاج ہے۔ اس سے لوگوں کا مزاج بنتا ہے۔ اس کا مظاہرہ میں نے آج یہاں دیکھا۔ خدا کی قسم ایسا سکول تو لاہور میں بھی نہ ہو گا۔ کاروباری تعلیم کے سارے لوازمات سے آراستہ تعلیمی ادارے تو بہت بن گئے ہیں مگر وہاں سچی طرح پڑھنے لکھنے کا ماحول ابھی نہیں بنا۔ ہر بچہ یہ سوچتا ہے کہ میں یہاں سے نکلوں گا تو بہت پیسے کمانے والی ملازمت اختیار کر لوں گا۔
چودھری ندیم کا سی بی اے ڈگری کالج ان کے والد کے نام پر ہے۔ چودھری بشیر احمد۔ اس کا سنگ بنیاد ان کی عظیم ماں نے رکھا ہے۔ وہ تقریب میں موجود تھیں۔ جو بھی ادارے ماں کی نسبت سے شروع ہوتے ہیں ان کے تاریخ ساز کردار سے دنیا والے حیران رہ جاتے ہیں۔ عمران خان کا کینسر ہسپتال پوری دنیا میں معروف ہے اور وہ اس کی ماں شوکت خانم کی یاد میں بنایا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس دلفریب تعلیمی ادارے کی تقریب میں داخل ہوں تو یہ بتاتے چلیں کہ سکول کے صدر دروازے پر معروف شاعرہ اور سکالر پنجابی انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر صغریٰ صدف بھی اپنی پیاری بیٹی ننھی منھی پریا کے ساتھ موجود تھیں۔ ان کا گھر ساتھ میں ہے۔ وہ اس کا مائیکہ ہے اور اس کا نام سرسال ہے جسے چودھری ندیم سسرال کہہ رہے تھے۔ مائیکہ اور سسرال کی جذباتی سرحدیں مل جائیں تو بات بن جاتی ہے مگر یہ بات کبھی کبھی بنتی ہے۔ وہ مہمان تھی مگر میزبان لگ رہی تھی۔ ایک اچھی سچی عورت جہاں مہمان ہو وہاں بھی میزباں ہوتی ہے۔ وہ انتظامی اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ پنجابی انسٹی ٹیوٹ اس کی وجہ سے ایک قومی ادارہ بن گیا ہے۔
جنڈالہ گجرات کی تحصیل کھاریاں کا گاﺅں ہے۔ ناروے میں کھاریاں سے بہت لوگ گئے ہوئے ہیں۔ ناروے جا کے مجھے محسوس ہوا کہ اس کا نام ناروے کی بجائے کھاروے ہونا چاہئے۔ جنڈالہ کے لوگ امیر کبیر ہیں مگر ان میں اچھے غریبوں والی سادگی آسودگی اور ساری اچھی باتیں موجود ہیں۔ ہم تقسیم انعامات کی تقریب میں پہنچے تو لگتا تھا کہ ساری بستی کے لوگ خواتین و حضرات اور بچے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ عید کا سماں تھا۔ عید کے دن بھی یہ رونق نہ ہوتی ہو گی۔ یہاں تو قریب ہی صوفی شاعر میاں محمد بخش کا مزار ہے۔ ان کا ایک مصرعہ ہے
اس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر ملاں گے
یہ ایک انوکھی خوشی سے بھری ہوئی زندہ تقریب تھی۔ چھوٹے چھوٹے پیارے بچوں میں انعامات تقسیم کرتے ہوئے میں خود بھی انعام یافتگان میں شامل ہو گیا۔ انعام کا اصل مفہوم تو ان بچوں کی آنکھوں میں لکھا ہوا تھا۔ کچھ ریگولر بچوں کو بھی انعام ملا۔ انہوں نے پورے سال میں ایک چھٹی بھی نہ کی تھی۔ یہ تو لائق فائق بچے ہوتے ہیں۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
ایک ننھی منھی بیٹی آمنہ نے ایسی معصومیت اور بھولپن کے بانکپن کے ساتھ رقص پیش کیا کہ اگر کترینہ کیف بھی اس ادا سے ناچے تو مزا آ جائے۔ ماریہ اور انعم نے بہت اعتماد اور شگفتگی کے ساتھ کمپیرنگ کرکے محفل کو زندہ سلامت رکھا۔ وائس پرنسپل محترمہ نگہت عثمان نے سالانہ رپورٹ بہت اچھے انداز میں وضاحت کے ساتھ پیش کی۔ پروگرام کو ترتیب دینے میں ٹیچر سمیعہ ناہید اور اقصیٰ کے علاوہ سب نے بہت محنت کی۔ چودھری ندیم نے ڈاکٹر صغریٰ صدف کا خاص طور پر ذکر کیا اور معروف شاعر فرحت عباس شاہ کو بھی یاد کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری اپنی دس بسوں میں 158 بستیوں سے بچے سکول میں لائے جاتے ہیں۔ تقریب کے اختتام پر ہم نشان حیدر میجر عزیز بھٹی شہید کے مزار پر گئے ان کا سادہ سا گھر بھی ساتھ ہے۔ یہاں اب ایک ڈسپنسری قائم کی گئی ہے۔ میجر عزیز بھٹی شہید کی بیٹی زینت میرے کزن ڈاکٹر رفعت کی اہلیہ ہیں۔ میں لاہور آ گیا ہوں مگر اپنا دل جنڈالہ میں چھوڑ آیا ہوں۔ شہر والوں کو کبھی کبھی دیہاتوں کی طرف جانا چاہئے۔ کشیدگی صرف کشادگی سے ختم ہو سکتی ہے۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ میں ایک تعلیمی جنت سے ہو کے آ رہا ہوں واپس آتے ہوئے احمد نے ایک شعر سنایا
توں پاک خدا دی چاہ ورگاہ
ساڈے پنڈ نوں جاندی راہ ورگا
یہ شعر اتنا اچھا ہے کہ میں اس کا ترجمہ کرکے سارے تاثر کو زائل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے احمد کو اپنا ایک شعر سنایا
گھر کی جانب جانے والے راستوں جیسا ہے وہ
منزلوں سے پیشتر ہی منزلوں جیسا ہے وہ

ای پیپر دی نیشن