نئی دہلی (اے ایف پی+ ایجنسیاں) بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ضلع مظفر نگر میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی ذمہ داری اترپردیش حکومت ہے جو فرقہ وارانہ دنگوں کے دوران مسلمانوں کے تحفظ میں ناکام رہی۔ مظفرنگر میں جعلی ویڈیو کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ چیف جسٹس پی شری واستم نے گزشتہ روز مظفر نگر کے وکلا کی طرف فسادات کی تحقیقات اور ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کیلئے عدالت عظمی میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران مظفر نگر فسادات کی بھارتی وفاقی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی سے تحقیقات کرانے کی استدعا مسترد کردی اور کہا اترپردیش حکومت انسانی حقوق اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری پوری نہیں کرپائی اور فسادات روکنے کیلئے بروقت اور مناسب اقدامات نہیں کئے۔ اسکے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھی مظفر نگر میں پھیلتی گڑ بڑ کی قبل از وقت اطلاع نہ دیکر فرائض میں سنگین غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اگر مرکزی اور ریاستی خفیہ ایجنسیاں یہ جاننے کی کوشش کرتیں کہ مظفر نگر میں کیا ہونے جا رہا ہے تو فسادات کو ابتدائی مراحل میں روکا جا سکتا تھا۔ عدالت نے حکم دیا کہ غفلت کے مرتکب جو بھی افسر پائے جائیں، انکے خلاف کارروائی کی جائے اور جن لوگوں کیخلاف مقدمات درج ہوئے انہیں سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر گرفتار کیا جائے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ فسادات کے متاثرین کو مذہب سے قطع نظر فوری امداد دی جائے اور حق داروں کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ اتر پردیش پر بی جے پی کی مخالف جماعت سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے جس کے وزیراعلی اکھلیش یادیو پارٹی سربراہ ملائم سنگھ کے بیٹے ہیں۔ ملائم سنگھ کے دور وزارت اعلیٰ میں 1992ء میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا جب کہ گزشتہ برس کے مظفر نگر فسادات میں 100 سے زائد مسلمان انتہاپسند جاٹ ہندوئوں نے مار ڈالے تھے سینکڑوں مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔