حاضر سروس آرمی افسروں کے خلاف صرف فوجی عدالت میں ہی کیس چل سکتا ہے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (وقائع نگار+ آئی این پی+ آن لائن) سپریم کورٹ نے خضدار میں اجتماعی قبروں سے ملنے والی 14 نعشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ میں تاخیر پر حکومت پنجاب سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو  بھی ذاتی طور  پر  پیش ہونے کا  نوٹس جاری کردیا جبکہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر چیف سیکرٹری بلوچستان سے تفصیلی جواب طلب کیا ہے اور چیف سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ایف سی کے وکیل عرفان قادر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے مشترکہ اجلاس منعقد کرکے اس کی رپورٹ بھی عدالت پیش کی جائے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے بلوچستان بدامنی  کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئے کہ حاضر سروس آرمی افسران کیخلاف مقدمات صرف فوجی عدالتوں میں ہی چلائے جا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ قانون کی کتابوں میں ذاکر مجید مفرور ہے عدالت اسے لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل نہیں کر سکتی۔ مقدمہ سماعت کے لئے کوئٹہ سپریم کورٹ رجسٹری برانچ بھجوانا ہمارے اختیار سے باہر ہے اس حوالے سے چیف جسٹس پاکستان کو ہی درخواست دی جا سکتی ہے۔ بلوچستان کی بدامنی دور کرنے کیلئے ہر سطح پر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی انتہائی ضروری ہے تاہم ملکی امن خراب کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق آہنی ہاتھوں سے نمٹنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوران سماعت چودہ نعشوں کے حوالے سے ڈی این اے ٹیسٹ بارے عدالتی حکم پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا  14 نعشوں کے 44  نمونے حاصل کرکے پنجاب فرانزک لیبارٹری بھجوائے گئے جن کے نمونے ایک ہفتے میں میچ کرنا انتہائی مشکل اور ناممکن ہے۔ لیبارٹری نے چار سے پانچ ماہ اس کام کے لئے مانگے ہیں۔ بلوچستان حکومت نے جلد ڈی این اے کے لئے حکومت پنجاب کو خط بھی ارسال کیا ہے جبکہ ایف سی کے وکیل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا حاضر سروس آرمی افسران جن کے بارے میں شبہ ہے وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے مبینہ طور پر ملوث ہیں  معاملہ آرمی حکام کو بھجوا دیا گیا ہے ان کی چیف سیکرٹری سے تاحال میٹنگ نہیں ہوسکی  اس لئے لاپتہ افراد بارے مزید پیش رفت پر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ سماجی تنظیم کے رہنما نصراللہ بلوچ نے عدالت کو بتایا آرمی عدالتوں میں مقدمات چلنے کے باعث ان کو انصاف نہیں مل سکے گا۔ اس پر عدالت نے کہا فوجی عدالتیں افسران کو رہا یا سزا دیتی ہیں تو دونوں صورتوں میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ سے رجوع کا حق رکھتے ہیں۔آپ نے ٹربیونل میں درخواست دینا تھی وہ دی ہی نہیں۔ نصراللہ نے کہا ذاکر مجید کو لاپتہ کیا گیا جس پر  عدالت نے کہا وہ لاپتہ نہیں مفرور ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے ہیں بلوچستان میں لوگ مر رہے ہیں اور چیف سیکرٹری امریکہ گھوم رہے ہیں‘ چیف سیکرٹری امریکہ کا دورہ کر سکتے ہیں تو ایف سی کے وکیل سے کیوں نہیں مل سکتے؟  ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا چیف سیکرٹری میرے اور ایف سی کے وکیل کے درمیان میٹنگ ہونا تھی۔ پہلے میٹنگ کی تاریخ مقرر کی تو چیف سیکرٹری کو اس روز وزیراعظم نے اسلام آباد طلب کر لیا، بعد میں وہ بیرون ملک چلے گئے، اب ان کی اس ماہ کے آخر میں واپسی ہے جس پر عدالت نے حکم دیا اپریل کے پہلے ہفتے میں مذکورہ میٹنگ کا انعقاد کیا جائے اور رپورٹ دی جائے۔ سماعت 2 ہفتے کیلئے ملتوی کر دی گئی۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...