”صدر“ زرداری سب سیاستدانوں کے لئے بھاری ثابت ہوئے تھے۔ پھر وہ بھاری بھرکم ہو گئے۔ اب ان کے لئے اپنا بوجھ سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ انہوں نے نواز شریف کو ڈرا لیا۔ ڈرے ہوئے تو دونوں ہیں۔ میثاق جمہوریت مذاق جمہوریت بن کر بھی دونوں کے لئے ابھی دھندلی سی امید بنی ہوئی ہے۔ ”صدر“ زرداری کو اس سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ نواز شریف کو ان سے نسبتاً کم فائدہ ہوا ہے مگر فائدہ ہوا ہے۔ اب ”صدر“ زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی اپنی بھاری سیاست کو آزمانا شروع کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے لئے بھی زرداری سیاست کامیاب ہے مگر انہیں معلوم نہیں ہے کہ جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف میں بہت فرق ہے۔ جیسے رحمن ملک اور چودھری نثار میں بہت فرق ہے۔ ”صدر“ زرداری کو ”مرد حر“ صرف جیل میں رہنے کے لئے مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا تھا۔ زرداری کے ”جیالوں“ نے بہت ایکسپلائٹ کیا۔ تب نواز شریف نے مجید صاحب سے شکایت کی تو انہوں نے فرمایا آپ اب بھی کچھ کر کے دکھاﺅ تو میں آپ کو اس سے بھی بڑا خطاب دوں گا۔ زرداری صاحب اور ان کے ”دوست“ اس جملے پر بھی غور کریں۔ مجید نظامی نے فرمایا ”زرداری کو خطاب جیل کاٹنے پر دیا تھا۔ جیب کاٹنے پر نہیں دیا تھا۔“ یہ جملہ نوائے وقت کے پلاٹینم جوبلی نمبر میں شائع ہو چکا ہے۔
جب دو رینجرز شہید ہوئے تو جنرل راحیل شریف کراچی پہنچے۔ رینجرز ہیڈ کوارٹرز گئے۔ وہاں اجلاس بھی کیا۔ اس کے بعد نواز شریف بھی کراچی پہنچے۔ ان کو ائر پورٹ پر لینے کے لئے قائم علی شاہ آئے ہوئے تھے۔ نواز شریف سیدھے رینجرز ہیڈ کوارٹرز پہنچے۔ قائم علی شاہ بھی ساتھ تھے۔ نواز شریف سیدھے اندر چلے گئے اور قائم علی شاہ سے کہا کہ سائیں آپ بزرگ آدمی ہیں گھر جا کر آرام فرمائیں۔ پھر اجلاس میں یہ بات ہوئی کہ ہم نے کچھ فیصلے کئے ہیں نواز شریف جب زرداری صاحب سے ملیں تو ان کو بھی بتا دیں۔ اس کے بعد نواز شریف زرداری صاحب کے پاس گئے۔
اس سے پہلے ایک میٹنگ میں ایجنڈا پر بات ہو رہی تھی۔ اجلاس میں زرداری صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے ایک چٹ شرجیل میمن کو دی جس میں لکھا تھا کہ آپ ایجنڈا پر بات کرتے ہوئے معاشی دہشت گردی اور کرپشن کے لئے بھی بات کر رہے ہیں تو اس طرح ایجنڈے سے ہٹ تو نہیں رہے ہیں؟ اس پر اس آدمی کو ڈانٹ دیا گیا۔ شرجیل میمن میں اتنی جرا¿ت نہیں تھی وہ اپنے لیڈر کی یہ بات کر سکتا۔ یہ باتیں میڈیا پر آ چکی ہیں۔ اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان میں صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لئے سب کچھ کرنا ہو گا۔ کچھ لوگوں نے یہ بات بھی پھیلائی ہے کہ اب بلاول ہاﺅس پر چھاپہ پڑے گا تو زرداری صاحب جیسے چالاک سیاستدان سے یہ توقع ہو سکتی ہے کہ وہ بلاول ہاﺅس میں کوئی ایسی چیز رہنے دیں گے جو قابل اعتراض ہو یا مطلوب ہو۔ وہ تو صرف ”طالب“ ہونے میں یقین رکھتے ہیں۔ یہی ان کی سیاست ہے کہ کون کس چیز کا طالب ہے۔ اب سب پر بھاری کی بجائے سب سے یاری کا نعرہ مقبول ہو رہا ہے۔ مولا علیؓ کا فرمان ہے کہ جو سب کا یار ہے وہ کسی کا یار نہیں ہے۔
جنرل کیانی جب ”صدر“ سے ملتے تھے تو ایک یہ روایت بہت عام ہوئی کہ وہ سب سے پہلے ان سے پوچھتے کہ آپ کے بھائیوں کا کاروبار کیسا جا رہا ہے۔ اب انہیں جنرل راحیل شریف سے ملنے کی ہمت ہی نہیں پڑ رہی۔ جنرل مشرف کو بھی یہ ہدایت مل چکی ہے کہ سیاسی بیانات میں کسی کی حمایت کے لئے احتیاط برتی جائے جبکہ ”صدر“ زرداری نے خود بخود ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے کی کمٹمنٹ میں تاخیر کر دی ہے۔ ان کا یہ بیان بھی پہلے منظر عام آچکا ہے کہ ایم کیو ایم کو مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑیں گے اور نواز شریف نے کراچی میں ہوتے ہوئے ایم کیو کے وفد سے ملاقات نہیں کی۔ جب کراچی ائر پورٹ سے وہ کسی محفل میں گئے جہاں ایوارڈ وغیرہ دینے تھے تو ”مستقل“ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد موجود تھے۔ جب نواز شریف نے کہا کہ کراچی میں بلاامتیاز آپریشن ہو گا۔ مجرموں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ ہم دوبارہ کراچی کو امن کا گہوارہ اور روشنیوں کا شہر بنائیں گے تو اس کے لئے تالیاں بجیں۔ سب سے پہلے زوردار طریقے سے تالی گورنر سندھ نے بجائی۔ اس کے بعد جب نواز شریف کور کمانڈر سے ملنے گئے تو ڈاکٹر عشرت العباد ساتھ نہیں تھے۔
پیپلز پارٹی والوں کو تو یہ حق نہیں کہ وہ سندھ میں گورنر راج نہ لگنے کی بات کریں۔ ”صدر“ زرداری نے خود پنجاب میں گورنر راج لگایا تھا جو سلمان تاثیر سے بھی چل نہ سکا۔ عشرت العباد سے کیا چلے گا۔ عشرت العباد کو جانا ہو گا۔
کراچی ٹھیک ہونا چاہئے اور پورا پاکستان ٹھیک ہونا چاہئے۔ پاکستان کو خراب کرنے والوں کا حال خراب ہوا ہے۔ مجھے آغا مشہود شورش نے بڑے درد سے کہا کہ پاکستان کا دشمن قرآن کا دشمن ہے۔ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود اٹھایا ہوا ہے۔ پاکستان کی حفاظت بھی وہ خود کرے گا۔ قرآن 27 رمضان کو لیلتہ القدر میں رحمت اللعالمین، محسن انسانیت رسول کریم حضرت محمد کے دل پر اترا تھا۔ اور پاکستان اسی رات کو بنا ہے۔ اس لئے میں پاکستان کو خطہ عشق محمد کہتا ہوں۔ پاکستان کو بچانے کا وقت ہے۔ پاکستان میں اپنے آپ کو اپنے مال و دولت اور حکومت کو بچانے والے اس حقیقت کو سمجھیں کہ پاکستان ہو گا تو سب کچھ ہو گا۔ اور انشااللہ پاکستان ہو گا اور رہتی دنیا تک ہو گا۔
ایک جرنیل کور کمانڈر پشاور نے کہا کہ ”آپریشن ضرب عضب ایک نظریہ ہے۔“ اس کا دائرہ نظریہ پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ مرشد و محبوب مجید نظامی نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ بنایا تھا تو ان کے دل میں کیسے کیسے ولولے تڑپتے تھے۔