آسانیاں اور پشیمانیاں

معاشرے میں عدم برداشت‘ معاشی ناہمواری اور جہالت و غربت کے بڑھتے ہوئے آسیب نے احترام آدمیت کو پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ اب احساس سے عاری لوگوں پر لفظوں‘ فقروں‘ باتوں کا اثر نہیں ہوتا بلکہ ہر احساس چکنے گھڑے پر پڑی بوند کی ماند پھسل جاتا ہے۔ ہر چھوٹی بڑی بات پر احتجاج کا غیر مثبت رویہ ہماری جہالت و کم علمی کا ثبوت بنتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے ہم پتھروں کے زمانے سے بھی کہیں پیچھے کی تہذیبوں میں بس رہے ہیں یا پھر ہم کسی ایسے غیرانسانی سیارے کی مخلوق ہیں جس کے سینے میں دل تو ہرگز موجود ہی نہیں اور دماغ و ذہن یہاں تک کہ احساس کی تمام تر حسیات منجمد ہو چکی ہیں۔ دین کی روشنی و تعلیمات سے کہیں پرے‘ ہم غیر مسلموں سے تحریری و غیر تحریری تمام معاہدوں کی روایات ریز ریزہ کر چکے ہیں جن میں کسی بھی شخص کو جسمانی و ذہنی اذیت پہنچانا قابل مذمت ہے۔ جہاں غیر مسلموں کے جان و مال کی حفاظت معاشی و شخصی آزادی کیساتھ مذہبی امور کی بجاآوری کو بھی محترم جانا ہے۔ ایسے میں یوحنا آباد کی عبادت گاہوں میں ہونیوالی بربریت نے تمام پاکستانیوں کی روح کو گہرا زخم تو دیا ہے‘ لیکن حساس لوگ ایک نہ ختم ہونے والی تڑپ و اذیت میں مبتلا ہیں۔ اس لرزا دینے والے واقعے اور اس کے ردعمل نے انسانی قدروں کے امین لوگوں کو اندر تک ہلا کے رکھ دیا ہے اس لئے کہ ہم مسلمان ایمان لاتے ہیں۔ مسیحیت پر کیونکہ دین حق کی حقانیت کی تصدیق کرنیوالا ورقہ بن نوفل بھی مسیحی پیرو تھا‘ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیںکہ اسلام کسی بھی مکتبۂ فکر کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔ عبادت گاہوں کا تقدس ہمارا درس اولین ہے تو پھر کون ہیں وہ لوگ جن کی انانیت و وحشت کی تسکین ہو رہی ہے۔ مسیحیت تو کہتی ہے ’’اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا آگے کر دو‘ کوئی تن کا کرتا مانگے تو اتار کر دے دو۔‘‘ حضرت عیسیٰ نے محبت‘ رواداری اور برداشت کا جو سبق دیا‘ اسکے حوالے سے افریقی نوبل انعام یافتہ ڈیمن ٹوٹو نے کہا تھا ’’نہ تو سارے مسلمان دہشتگرد ہیں اور نہ سارے مسیحی‘‘ تو پھر اپنے ساتھ ہونیوالے ظلم کیخلاف پُرتشدد‘ تضحیک آمیز ردعمل بپا کرنیوالے کون تھے۔ رزق روٹی کی تلاش میں نکلے غریبوں کو زندہ جلا کر اپنے غم و غصے اور جہالت کی آگ سیکنے والے اپنے انتقامی الائو کو کیوں ٹھنڈا نہیں کر پا رہے تھے۔ آخر ازخود فیصلہ کرکے سزا دینے کا اختیار کب تک ہمارے اندر حیوانیت و بربربیت کی بنیاد ڈالتا رہے گا۔ہم من حیث القو م اپنا مسخ چہرہ کس کس سے چھپائیں گے۔ چند سکوں کے عوض بکنے والوں نے تو ہنستے بستے گھر اجاڑ دیئے لیکن محبت کا انمول درس پڑھنے والوں نے کیا کیا؟ اذیت ناک بات تو یہ ہے کہ شعور و بیداری کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھنے والوں نے اپنی سیاسی پختگی و دانائی کا ثبوت منہ میں نو گز لمبی زبان کے ساتھ میڈیا پر حسب سابق مذمتوں اور منہ سے اگلنے والی جھاگ کے ساتھ چیختے دھاڑتے حکومت کی اعلیٰ گورننس پر طنز و استہزاء کرتے ہوئے دیا۔ آگ لاہور میں لگتی ہے‘ سیاسی دانشور گوادر جا کر واویلا کرتے ہیں۔ میں ذاتی طورپر موجودہ حکومت پر انتہائی تنقیدی نظر رکھنے والوں میں شمار ہوتی ہوں‘ لیکن ہماری وزارت داخلہ نے استحکام و تحفظ اور شہری شناخت کی اصلیت کو حقیقی بنانے کیلئے جس طرح اپنے اداروں میں تہہ در تہہ صفائی کا آغاز کیا ہے‘ وہ کوئی سہل کام نہیں۔ ایسے میں اگر قوم کو تقسیم کرنیوالے بدترین واقعات رونما ہو جائیں تو بدقسمتی سے ہمارا میڈیا بھی عقل و دانش اور شعور کی وسعتوںکی بجائے انتہائی گھنائونی سطیحت کا شکار ہو جاتا ہے۔ قانون کی حدیں پار کرتے غم و غصے سے بپھرے لوگوں کو براہ راست نشریاتی دنگل میں رننگ کمنٹری کیساتھ پیش کرنا انسانیت کی تذلیل کے مترادف ہے۔ ایسے بے ہنگم ہجوم کے آگے بند باندھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ہر کسی کو اپنی عزت و عصمت کا خوف در آتا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ڈر اور خوف انسان میں ہیجانی کیفیات کا موجب بنتا ہے۔ جس طرح بے شعور مشتعل ہجوم نے راہ چلتی گاڑی میں بیٹھی مریم صفدر کا راستہ روکا‘ ایک نہتی لڑکی پر بے وجہ‘ بے قصور ڈنڈوں کی بارش کرکے گاڑی کے شیشے توڑ دیئے اس پر اک ہجوم جھپٹنے لگا۔ خود سوچیئے آپ اس کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ وحشت زدہ ہجوم کے شکار سے بچنے کیلئے ہراس میں اگر لڑکی کا پائوں ایکسیلیٹر پر آگیا تو کتنے ہی لوگ کچلے گئے۔ اگر کہیں اس کا پائوں بریک پر آجاتا تو خود سوچ لیجئے ہجوم اس کو بھی بے وجہ زندہ جلا دیتا یا اسکے جسم کی بوٹیاں کردیتا۔ اگر پولیس اسے بچا کر نہ لے جاتی تو اس ڈری ہوئی لڑکی سے ہونیوالا سلوک پاکستان کے چہرے پر کئی بدنما داغ چھوڑ جاتا۔ہر سکول اور عبادت گاہ کے سامنے پہرے بٹھانا حکومت کے بس کی بات نہیں۔ کچھ کام انسانی فلاح کی دعویدار سیاسی قوتوں‘ سماجی تحریکوں‘ مذہبی خدمت گاروں کے بھی ہیں۔ کاش اس آگ اور خون کے کھیل کو ختم کرنے کیلئے کوئی عوامی لیڈر ہجوم لیکر انکے سامنے کھڑا ہوتا۔ خود کو عقل کل سمجھنے والے سیاسی پختگی و نادانی سے عاری لوگوں کی یہ ہر لمحہ سکرین پر نظر آنے والی آسانیاں بھی انکی پشیمانیاں بھی بن سکتی ہیں کیونکہ جان لیجئے تمام کام حکومت کے کرنے کے نہیں ہوتے‘ کچھ کام سیاسی‘ مذہبی‘ سماجی اشرافیہ کے بھی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...