پیپلز پارٹی کا صدر غیر مسلم ہونا چاہئے۔۔۔!

بلاول نے کہا کہ ’’بھارت میں مسلمان صدر بن سکتا ہے تو پاکستان میں اقلیتی کیوں صدر نہیں بن سکتا‘‘۔ بات تو بظاہر خوبصورت کہی توکیوں نہ اس نیک کام کی شروعات پیپلز پارٹی سے کی جائے۔ پیپلز پارٹی کا صدر اور چیئرمین اقلیت میں سے منتخب کیا جائے اور پھر جب پیپلز پارٹی اقتدار میںآئے تو اس کا صدر بلاول کے باپ کی بجائے کسی ہندو یا عیسائی کو بنایا جائے۔ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں کہ جس کا جو جی چاہے منہ پھاڑ کر بیان دے دے یا من پسند اصول وضع کرے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس سرزمین پاک میں اٹھانوے فیصد آبادی مسلمانوں کی بستی ہے۔ اقلیتوں سے صدر کا تجربہ پیپلز پارٹی جماعت سے آزمایا جائے۔ پیپلز پارٹی کے یہ باپ بیٹا بھٹو کی پارٹی پر سانپ بنے بیٹھے ہیں، اتنا ظرف نہیں کہ پارٹی کے پرانے مخلص ساتھیوں میں کسی کو پارٹی صدر بننے کا موقع دیا جاتا۔ نانا اور ماں کے دیرینہ وفادار ساتھی دھکے کھا رہے ہیں، انہیں استعمال شدہ ٹشو کی مانند پھینک دیا گیا ہے اور چلے ہیں ملک کا غیر مسلم صدر منتخب کرنے۔ زرداری کے فرزند بلاول کو جذباتی تقریر لکھ کر رٹا دی جاتی ہے اور معصوم بچے کو نانا کی طرح شعلے اگلنے کی اداکاری پر مجبور کیا جاتا ہے۔ درحقیقت ان لوگوں کو اقلیتوں سے نہیں ان کے ووٹوں سے غرض ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق غیر مسلم ووٹرز کی تعداد 27 لاکھ 70 ہزار ہے۔ جن میں سب سے زیادہ تعداد ہندو ووٹرز کی ہے، دوسرے نمبر پر عیسائی اور تیسرے نمبر پر قادیانی ووٹرز ہیں۔ پاکستان میں آباد یہودی، عیسائی، پارسی، سکھ، بدھ مت کے پیروکار باقاعدگی سے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں۔ غیر مسلم ووٹرز کی بڑی تعداد سندھ اور پنجاب کے اضلاع میں موجود ہے۔ پاکستان میں اقلیتیں ہمیشہ محترم رہی ہیں، بھائی چارہ اور حب الوطنی کا اہم تقاضہ ہے کہ پاکستانی ایک دوسرے کو سب سے پہلے پاکستانی سمجھیں اور ایک دوسرے کے مال اور جان کا احترام کریں۔ بحیثیت پاکستانی اقلتیں بھی ملک کا اثاثہ ہیں۔ دشمن ہماری صفوں میں انتشار پھیلانے کی سر توڑ کوششوں میں لگا ہوا ہے، سازشوں نے پاکستانیوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ غیر مسلموں کے حقوق کا احترام کرنا دین اسلام نے سکھایا ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو پاکستان میں سب سے زیادہ مسلمان نوالہ اجل بن رہے ہیں۔ گولی پر کسی کا مذہب نہیں لکھا ہوتا‘ ظالم کا نشانہ بلاامتیاز ہوتا ہے۔ گرجا گھروں میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں تو مساجد اور درگاہیں بھی محفوظ نہیں۔ پاکستان کے اقلیتی ووٹرز پاکستان کے حالات پر اثرانداز ہوتے ہیں لہذا سیاسی قائدین کو اقلیتوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور ان کی جان و مال کی حفاظت کی مکمل یقین دہانی کرنی چاہیے۔ بلاول سے پہلے ایسا ہی ایک جذباتی بیان سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی دے چکے ہیں۔ موصوف نے فرمایا تھا ’’ناموس رسالتؐ سمیت تمام قوانین پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ اقلیتوں میں سے بھی صدر‘ وزیراعظم اور چیف جسٹس ہونا چاہئے‘‘۔
اسلامی مملکت کا نام نہاد مسلمان وزیراعظم ایک طرف ناموس رسالتؐ کے قانون پر عملدرآمد کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف غیر مسلم کو صدر‘ وزیراعظم اور چیف جسٹس بنانے کی تجویز دیتا ہے۔ امریکہ کے آئین میں بھی مذہب ریاست سے الگ ہے مگر دنیا کی اس آزاد ترین‘ خود مختار اور سب سے بڑی جمہوری ریاست میں بھی مذہب کو ریاست سے الگ نہ کیا جا سکا۔ امریکہ میں تمام مذاہب کے لوگ آباد ہیں مگر عیسائی مذہب کو ماننے والوں کی اکثریت ہے لہذا وائٹ ہائوس میں جانے کے لئے عیسائی مذہب ہونا لازمی ہے۔ غیر مسیحی امریکہ کا صدر نہیں بن سکتا بلکہ ملک کے دیگر حساس اور اعلیٰ عہدوں پر بھی مسیحی طبقے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ جس کو پاکستان بننے پر اعتراض ہے وہ بھارت چلا جائے اور جس کو خود پر غیر مسلم مسلط کرنے کی آرزو ہے وہ غیرت سے ڈوب مرے۔ پاکستان میں 97 فیصد مسلمان ہیں جبکہ 3 فیصد غیر مسلم آباد ہیں۔ غیر مسلموں کے حقوق کا احترام کرنا دین اسلام نے سکھایا ہے۔ اسلام کا کسی مذہب کے ساتھ موازنہ نہیں۔ دہشت گردی، بدعنوانی، غنڈہ گردی کا کسی مخصوص مذہب سے تعلق نہیں مگر پاکستان میں دہشت گردی لانے والے غیر مسلم ہیں۔ مسلمانوں کی مقدس کتاب کو بھی نذر آتش کرنے والے غیر مسلم ہیں۔ پاکستان ایک پرامن ملک تھا‘ اسے غیر محفوظ بنانے والے دشمنان اسلام ہیں۔ مقاصد قیام پاکستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے لئے جدوجہد کا مقصد مسلمانوں کے لئے ایک الگ آزاد ریاست کا حصول تھا۔ ایک ایسی سرزمین جس میں مسلمان اپنی مرضی کی حکومت قائم کر سکیں۔ اپنے مذہب پر عمل کر سکیں۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا اپنا گھر ہو جس میں وہ اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیں ایک گھر دیا۔ اس گھر کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ لاکھوں گھر اجڑ گئے، ہزاروں بیٹیاں بے آبرو ہو گئیں، بے حساب جانیں گئیں، خون کی ندیاں بہا دی گئیں، جسموں ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے، پھر کہیں جا کر ایک گھر بنا اور اب بنا بنایا گھر پھر انہی لوگوں کے سپرد کر دیں جن سے آزادی حاصل کی تھی؟
یا شرعِ مسلمانی یا دیر کی دربانی
یا نعرۂ مستانہ‘ کعبہ ہو کہ بت خانہ
کسی ایک طرف لگو! پاکستان اسلامی مملکت ہے، اس سرزمین پر اقلیتوںکو بھی اپنے مذہب پر عمل کی آزادی حاصل ہے البتہ مسلمان دنیا بھر میں پِس رہے ہیں۔ خود مسلمانوں سے بھی مار کھا رہے ہیں اور غیر مسلموں سے بھی پرخچے اڑوا رہے ہیں۔ پاکستان مسلمانوں کے لئے بنا تھا اور جس ملک میں مسلمان بستے ہوں، اس کا ہیڈ آف سٹیٹ غیر مسلم کیوں کر ہو سکتا ہے؟ غیر مسلموں کے حقوق کا احترام اور غیر مسلم کو ہیڈ آف سٹیٹ بنانا‘ دو مختلف باتیں ہیں۔ پاکستان ناچ گانے‘ کنجر خانے یا غیر مسلموں کی حاکمیت کے لئے حاصل نہیں کیا تھا۔ مدینہ منورہ میں بھی تمام مذاہب کی لوگ آباد تھے مگر خلیفہ ہمیشہ مسلمان ہوتا تھا۔ نبی کریمؐ نے اقلیتوں کے حقوق کا احترام سکھایا مگر کسی غیر مسلم کو مدینہ کا حاکم نہیں بنایا۔ غیر مسلم کو بھی پاکستان کا صدر ہونا چاہیے‘ جملہ ادھورا ہے۔ ہونا تو اور بھی بہت کچھ چاہئے، کرپشن ختم ہونی چاہئے، سابق صدر زرداری کو ٹولے سمیت احتساب کے کٹہرے میں ہونا چاہئے، مہنگائی‘ لوڈشیڈنگ‘ بیروزگاری‘ دہشت گردی ختم ہونی چاہئے‘ امیر غریب کا تعلیمی نظام مساوی ہونا چاہئے، سیاستدانوں کو حلال کھانا چاہئے، امیروں کو ٹیکس ادا کرنا چاہئے، ملک سے بے حیائی اور لاقانیونت کا خاتمہ ہونا چاہئے، اقلیتوں کا احترام ہونا چاہئے، غریبوں کی عزت ہونی چاہئے، اسلام کا بول بالا ہونا چاہئے اور پیپلز پارٹی کا صدر ہندو ہونا چاہئے۔ لیکن بلاول کے باپ نے تو اس ملک کی رہی سہی ساکھ بھی برباد کر دی۔

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

ای پیپر دی نیشن