پاکستان کے اندر آجکل حیرتوں اور حمیتوں کی پٹاریاں کھل رہی ہیں۔ روز ایک نئی خبر روز ایک نئی حیرت۔۔۔کیا انسان کے اندر ضمیر نامی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کیا یہ چیز مر چکی ہو تو زندہ ہو جاتی ہے۔ ہاں ضمیر ہی ایک ایسی جنس ہے۔ جو مر کر زندہ ہو سکتی ہے۔ یا جب زبردستی مار دی جاتی ہے۔ تو ایک دن موقع پا کر زندہ ہو جاتی ہے۔ جب ضمیر زندہ ہو جاتا ہے۔ تو انسان اپنے سارے جرم قبول کر لیتا ہے۔
آج تک ہمارے ہاں حب الوطنی کی کوئی صحیح تعریف نہیں ہو سکی۔ لیکن غداری کی کئی تشریحیں سامنے آچکی ہیں۔ کیا آئین پاکستان کو اسکی تمام شقوں کے ساتھ قبول کرنا حب الوطنی ہے۔ یا آئین کی کسی ایک شق کو رد کرنا سراسر غداری ہے۔ نفی کرنا تو ایک الگ بات ہے۔ لیکن اسکی پاسداری نہ کرنا یا اس پر عمل نہ کرنا کس زمرے میں آئے گا۔
ہم نے جب کبھی سوشل میڈیا پر دو قومی نظریہ کی بات کی۔ سوشل میڈیا کے بعض خود ساختہ دانشور اور بے ساختہ اینکر لٹھ لے کے ہمارے پیچھے پڑ گئے۔ جب بھی نظریہ پاکستان کی بات کی‘ چڑ کر بولے۔ کیا ہے یہ نظریہ پاکستان۔۔؟ اگر کسی خود ساختہ اینکر کو نظریہ پاکستان کا علم نہیں۔ تو ایسی کرسی پر کیوں بیٹھا ہے۔ جو عقل وخرد کی بوچھاڑ کر رہی ہے۔
دو قومی نظریہ کی تشہیر اور تبلیغ تو آجکل بی جے پی کی حکومت نے انڈیا میں بہت اچھے طریقے سے کر دی ہے۔ بلکہ برابر ہو رہی ہے۔ جبکہ انڈیا کا ایک ذہین طبقہ ایک دم چیخ اٹھا ہے۔ وہاں مسلمانوں عیسائیوں اور ذاتوں کو ایک ہی قطار میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ یعنی ان کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ 9 مارچ کو اخبار میں خبر آئی تھی کہ ایک دلت بچہ ویرن تیند و خمیارہ کلاں گاؤں کے پرائمری سکول میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد آٹھ سال کا ویرن سکول کے ہینڈ پمپ پر پانی پینے گیا تو اونچی جاتی کے لوگوں نے اسے اس نلکے کا پانی پینے سے روک دیا۔ ناچار وہ پانی پینے کے لئے کنوئیں پر چلا گیا۔ کنوئیں سے پانی بھرتے ہوئے اس کا توازن بگڑ گیا اور وہ کنوئیں کے اندر گر کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
کنہیا کمار کے بارے میں آجکل وہاں بہت اونچے سروں میں بات ہو رہی ہے۔ کنہیا کمار ہے کون…
یہ ایک دلت نوجوان ہے۔ غریب گھر کا بیٹا ہے۔ اسکی ماں آنگن باڑی کرمچاری ہے۔ ماہانہ تین ہزار روپے کماتی ہے۔ حلال کی اس کمائی نے کنہیا کمار کے اندر ضمیر کی چکا چوند بھر دی ہے۔
28 برس کا یہ نوجوان آجکل بھارتی سیاست کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے۔ چھوٹے سے قد کا یہ غریب لڑکا 9 فروری تک ایک گمنام سا طالب علم تھا۔ جے این یو کے کئی طالب علم ایکٹوسٹوں میں سے ایک تھا۔ وہ جے این یو سٹوڈنٹس یونین کا صدر ہے۔ اس کے تمام ایکٹوسٹ دست ساتھیوں نے افضل گورو کو دی گئی پھانسی کے خلاف ریلی نکالی تھی… اس کے خلاف یہ الزام تھا کہ اس نے بھارت مخالف نعرے لگائے ہیں۔ اس کو حکومت ہند نے اس کے ساتھیوں سمیت غداری کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا تھا۔ بعدازاں ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔ مگر وہ اپنے دلت ہونے کی پاداش ابھی تک بھگت رہا ہے… مگر اپنی باتوں اور تقریروں سے لوگوں کو مسخر کر رہا ہے۔ لوگ بے اختیار اس کی باتوں کی طرف کھینچے آتے ہیں۔ وہ صاف کہتا ہے مگر اس کا لہجہ انتہائی نرم اور پر تبسم رہتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے۔ ’’ہم بھارت سے نہیں بھارت میں آزادی چاہتے ہیں‘‘۔ اس چھوٹے سے فقرے میں ایک انتہائی تلخ حقیقت چھپی ہے۔ وہ بلاخوف شانت ہو کر کہہ دیتا ہے کہ ’’کشمیر میں فوج کی طرف سے مہیلائوں کا بلادکار ہوتا ہے۔ اور پھر وہ کہتا ہے ہم آزاد ہندوستان میں سمسیائوں سے آزادی کیلئے سنگھرش کر رہے ہیں۔ بہت بڑا پھنسا ہوا، دبا ہوا اور محرومیوں کا مارا طبقہ آج کنہیا کمار کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کر رہا ہے۔ ایوانوں میں خوف ہے اور آسمانوں پر تحریر لکھی جا رہی ہے ؎
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کا مل نہ بن جائے!
دوسری طرف اسدالدین اویسی ہے۔ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ وہ بھارت ماتا کی جے نہیں بولیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے آئین میں کہیں لکھا ہوا نہیں ہے کہ بھارت ماتا کی جے بولنا ضروری ہے۔ شیوسینا نے فوراً حکم دے دیا کہ وہ پاکستان چلے جائیں۔ اس پر اویسی صاحب نے بھی کہہ دیا۔ خواہ میرے گلے پر چھری رکھ دیں میں بھارت ماتا کی جے نہیں کہوں گا…
آزادی اظہار کی ایک مثال نہیں۔ ایسی کئی مثالیں آپ کی نظر سے روز گزرتی ہونگی کہ مسلمانوں کو اپنے عقائد کے خلاف جس قسم کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا چھوت چھات کی وبا آج تک کیوں جاری ہے۔
ہمارے عقل کل قسم کے اینکرز کو اب معلوم ہو جانا چاہیے کہ دو قومی نظریہ کیا ہوتا ہے اور نظریہ پاکستان کیوں ضروری تھا ورنہ ٹرمپ کے بیان پر غور کر لیں۔
گائے کا گوشت کھانے پر قتل کرنا کیوں ضروری ہے۔
اپنے مذہبی تہوار آزادی کے ساتھ منانے کی ضرورت کیوں ہے۔
پاکستان کیوں ناگزیر تھا۔
اپنے ملک میں عزت نفس کے ساتھ چلنا کیا ہوتا ہے۔
دشمن کا آلہ کار بننا اور اپنے وطن کے خلاف اس کی کارروائیوں میں مدد کرنا صریحاً غداری ہے…
را کے ملوث ہونے کے ثبوت ملنا شروع ہو گئے ہیں۔
مکافات عمل سے کوئی ہیرو یا زیرو بچ کر نہیں نکل سکتا۔
سب لوگوں کو اپنی اپنی جگہ پر اپنا اپنا وطیرہ ٹھیک کرنا پڑے گا۔
را کا اگر ایک ایجنٹ گرفتار ہوا ہے اور وہ بھی بلوچستان ہے۔ تو اب ارباب اقتدار اختیار پر یہ بات کھل جانی چاہیے کہ یہ ایک فرد واحد نہیں ہو گا۔ پورے ملک میں انکا جال بچھا ہو گا اور یونیورسٹیوں تک ان کی رسائی ہو گی۔
ہر ادارے اور ہر فورم پر ان کے ’’لے پالک‘‘ کام کر رہے ہونگے۔ دہشت گردی صرف وہی نہیں ہوتی کہ بس میں خودکش حملے ہوتے ہیں بلکہ اداروں کے اندر لوگوں کی برین واشنگ کرتے رہنا بھی ذہنی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ انڈیا کی طرف سے یہ کام اس وقت سے شروع ہو گیا تھا جب پاکستان وجود میں آیا تھا۔ جب تک طاقتور حکمران ہے۔ یہ کھل کر اپنی کارروائیاں نہیں کر سکے۔ جب جب کمزور حکمران آئے ان کی کارروائیوں میں تیزی آگئی۔
اب آپ ہر ادارے میں جا کر محسوس کر سکتے ہیں ان کے تنخواہ دار وہاں بیٹھے کہہ رہے ہیں۔ بکواس ہے یہ پاکستان…
یہ کبھی نہیں سنور سکتا‘ کبھی نہیں سدھر سکتا۔
مسٹر جناح کو خبر نہیں کیا سوجھی؟ وہ محمد علی جناح کو قائداعظم کہنا پسند نہیں کرتے۔ علامہ اقبال کو شاعر مشرق تو کیا قومی شاعر بھی نہیں مانتے۔ آج جب ایران کے صد احترام صدر حسن روحانی تشریف لائے ہیں تو وہ مسلم امہ کے اتحاد کی ترجمانی علامہ کے فارسی کلام ہی سے کرتے ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ واہگہ بارڈر کھول دیا جائے… وہ جو کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان ویزا سسٹم ختم کر دیا جائے۔ وہ جو کہتے ہیں غیر مشروط تجارت شروع کر دی جائے۔ وہ جو کشمیر کے معاملے میں ٹانگ اڑاتے ہیں وہ جو دو قومی نظریہ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ جو نظریہ پاکستان کی تفسیر مانگتے ہیں۔ وہ جو ستر سال بعد بھی تاریخ پاکستان اور تحریک آزادی سے نابلد ہیں۔ وہ جو پاکستان کی خاطر جانیں گھر بار جائیدادیں اور خونی رشتے قربان کر دینے والوں کی عظمتوں سے ناواقف ہیں… وہ کس کی زبان بول رہے ہیں۔ انڈیا کی ایک تقریب میں پاکستان زندہ باد کہنے سے اگر ان پر غداری کا مقدمہ چلنے کی تحریک شروع ہوتی ہے۔ تو پاکستان میں بسنے والے ایسے بدطنیت لوگوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے…؟