گذشتہ روز ہمارے 14سالہ پوتے نے ہم سے ایک دماغ چکرادینے والا سوال کیا۔ کہنے لگا”دادا جان ،کنجوس کومکھی چُوس کیوں کہتے ہیں؟“ہم نے بہت غوروفکر کے بعد جواب دیا”بیٹا، اپنی دادی جان سے پوچھ لو،انھوں نے اس مضمون میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔“اُس نے کہا”دادی جان ہی نے تو مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔“ہم جان گئے کہ اُسے ایک سازش کے تحت ہم سے بھِڑایا گیا تھا۔لہٰذا ہم نے رفعِ شر کی خاطر اُسے مشورہ دیا”پھر یہ کرو کہ کسی مکھی سے پوچھ لو۔“وہ غریب مایوس ہوکر لوٹنے لگا تو ہمیں اس پر ترس آگیااور واپس بلا کر سمجھایا”بیٹا،تمھارے سوال کا صحیح ترین جواب سندھ کے وزیراعلیٰ دے سکتے ہیںجو اس مضمون میں ڈی لِٹ کی سند رکھتے ہیں۔“اب وہ ہم سے مایوس ہوکر جان چھڑانا چاہتا تھا جس کی ہم نے اسے اجازت نہیں دی۔ہماری بیگم کو بھی ہم سے یہی شکایت ہے کہ ہم بچوں کے ساتھ فلسفیانہ(درحقیقت احمقانہ)گفتگو کر کے ان کو اپنے سے دور کررہے ہیں۔اِدھر ہم سوچ رہے تھے کہ آج عرصے بعد ایک شکار جال میں خود داخل ہوکرپھنسا ہے تو اس سے تھوڑی سی ”کچہری“کر لی جائے ورنہ تو گھر میں ہماری یہ حیثیت ہے کہ ع جوکسی کے کام نہ آسکے ،میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں۔ہم نے گفتگو جاری رکھی...یعنی اس کے پوری طرح چکرائے ہوئے ذہن پرالجھنوں کی شیلنگ کرتے رہے۔ہم نے اسے نصیحت کی ”بیٹا،مکھی و کھی کا چکر چھوڑ کر اس حقیقت سے آگا ہی حاصل کرو کہ کنجوس کون ہوتا ہے اور اس کے اس ”جوہر“ کا وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے کیا تعلق بنتا ہے؟“اس نے تذبذب کے عالم میںکہا”چلیے وہی بتا دیجیے۔“ہم نے وضاحت کی ”بیٹا،کنجوس وہ ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کر نے کی جگہ نہیں کرتا اور جہاں نہیںخرچ کرنا چاہےے وہاں خزانے کے منہ کھول دیتا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ کا ذکر اس لیے درمیان میں آگیا کہ سائیں کے پاس سہون کے تعلقہ اسپتال میں دوائیں اور ایمبولینس گاڑیوں کی فراہمی کے لیے پھوٹی کوڑی نہیں لیکن انہوں نے جیالی ڈپٹی اسپیکر کے گھر کی تزئین و آرائش کے لیے ایک کروڑ روپے کی خطیر رقم ایک ہی دن میںجاری کر دی ۔کراچی کی سڑکوں کی مرمت کے لیے فنڈز موجود نہیںلیکن سندھ فیسٹیول پر بے دریغ خرچ کر دیتے ہیں۔شہریوں کے لیے مناسب تعدادمیں بسیں نہیںخرید سکتے جبکہ وزیراعلیٰ صاحب اپنے لیے نیا ہیلی کاپٹر خریدنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر تے۔گویاکنجوس وہ ہے جوعوامی فلاح و بہبود کے اخراجات کو پاپ سمجھتا ہے اور اراکین اسمبلی پر مراعات کی بارش کو عبادت کا درجہ دیتا ہے۔ اور کہاں تک سنو گے،کہاں تک سناﺅں
یہ” خرچ“نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے“
(جگر)
اب ہمارے پوتے کی حالت صاف بتا رہی تھی کہ وہ ہمارے پاس آکرپچھتا رہا ہے ۔ہم نے اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی بے زاری،بے کیفی اور بے ےقینی کو بھانپتے ہوئے کہا”چلو تمھیں ایک لطیفہ سناتا ہوں۔شایدتمھیںاس میں اپنے سوال کا جواب مل جائے۔“وہ ذراسنبھل کر بیٹھاتو ہم نے اسے بتایا کہ کبھی ہمارے محلّے میں ایک وکیل صاحب رہا کرتے تھے جن کا کاروبار ٹاپ پر جارہاتھا۔موصوف چھوٹے موٹے مقدمات کی فیس لاکھوںمیں لیتے تھے لیکن جب کسی بڑے ”فنکار“ کو بچانامقصود ہوتا ہے تو کروڑوں سے کم کی بات نہیں کرتے تھے۔یہاںاہلِ علاقہ کی فلاح و بہبود کے لیے ایک انجمن کام کررہی ہے جس کے اخراجات ہم سب مل جل کربرداشت کرتے ہیں۔ تاہم وکیل صاحب نے کبھی اپنی جیب ہلکی نہ کی۔بالآخر انجمن کا ایک وفد ایک دن ان کے پاس گیا اور انھیں محلّے میں ایک فلٹر پلانٹ لگانے کے پروگرام سے آگاہ کرتے ہوئے اِن سے چندے کی اپیل کی۔صدر انجمن نے بڑی خاکساری سے گزارش کی”سر، ہماری رفا ہی انجمن یہاںکے باشندوں کی بے لوث اور رضاکارانہ خدمت کررہی ہے۔ہمارے منصوبوں میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیںلیکن ہم بہ صد احترام عرض کرتے ہیں کہ آپ نے کبھی ہماری کوئی مالی مدد نہیںکی۔اب ہم یہاں ایک فلٹر پلانٹ لگا رہے ہیںجس سے سب فیضیاب ہوں گے۔کیا آپ اس سلسلے میں حسبِ توفیق کچھ مالی اعانت کریں گے؟“دوسرے الفاظ میں صدر انجمن نے وکیل صاحب کو یہ پیغام دیا کہ
بھلائی کر بھلائی کا نتیجہ
بُرے کو بھی بُرا ملتانہیں ہے
(انور شعور)
وکیل صاحب نے پوری توجہ سے صدرصاحب کی معروضات سنیں اور پھر انھیں بعض ”چشم کشا“حقائق سے یوں مطلّع کیا”محترم ،کیاآپ جانتے ہیں کہ میرا چھوٹا بھائی کینسر کا مریض ہے اور اس کے علاج پرماہانہ دو لاکھ روپے کا خرچ آرہا ہے؟“ ”افسوس ،ہمیں تو اس کا علم نہیں“ صدر انجمن نے احساسِ شرمندگی ظاہر کر تے ہوئے اپنی لا علمی کا اعتراف کر لیا۔”اور کیا آپ جانتے ہیں؟“وکیل صاحب نے عدالتی انداز میںایک اور دلیل دی ”کہ میری والدہ جو میرے بڑے بھائی کے ساتھ رہ رہی ہیں ایک سال سے فالج کا شکار ہیں۔انھیںعلاج معالجے کی فراہمی کے علاوہ دو نرسیں ملازم رکھی گئی ہیں جو شفٹوں میںان کی دیکھ بھال کرتی ہیں جبکہ میرے بھائی صاحب ایک سرکاری محکمے میں کلرک ہیں۔یہ بات آپ کے علم میں ہے؟“صدر انجمن نے ندامت سے جھکے ہوئے سر کے ساتھ جواب دیا”یقین جانیے ہمیں یہ سب کچھ معلوم نہ تھا۔ہمیں آپ سے پوری ہمدردی ہے۔“
” تو پھر آپ کو یہ بھی معلوم نہیںہوگا“وکیل صاحب نے گفتگو کو آگے بڑھایا”کہ میری بہن کے شوہریعنی میرے بہنوئی کادوسال قبل ایک حادثے میںانتقال ہوگیا تھا۔اب میری بہن کا کوئی کفیل نہیں جبکہ اس کے دو بچے ابھی زیر تعلیم ہیں۔“”ہمیںواقعی نہیں معلوم“ صدر انجمن نے رومال سے اپنے آنسوخشک کرتے ہوئے کہا” کیسا بے حسی کا دورہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد اور مصائب سے قطعاً آگاہ نہیں۔“ ”پھر تو آپ کو یہ بھی معلوم نہ ہوگا“وکیل صاحب نے آخری جواز پیش کیا”کہ میرے چچازادبھائی کی بینائی زائل ہوچکی ہے اور وہ بچارہ تین سال سے بے روزگار ہے۔“اُس وقت جب کہ وفد کے تمام ارکان اپنے رومالوں میںآنسوجذب کرنے کے بعد وکیل صاحب سے الوداعی مصافحہ کررہے تھے،وکیل صاحب نے بحث کو سمیٹتے ہوئے انھیں یہ
بتانا ضروری سمجھا”سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب میں اُن سب لوگوںکی، جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ایک پیسے سے بھی مدد نہیں کرتا تو پھرمیں آپ کو چندہ کیوں دوں؟“وفد کے ارکان جو لمحہ بھرقبل وکیل صاحب کی بپتا سن کر حوا س با ختہ تھے اپنے دلوںمیں”دُرفٹے منہ“ کہہ کرلوٹ گئے۔صدر انجمن زیر لب بڑبڑا رہے تھے
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
اتنا کہہ کر ہم نے پانی کا گلاس منہ سے لگایاجیسے ہی پانی حلق میں انڈیل لینے کے بعد ہم نے سامنے دیکھا توپوتا نو دو گیارہ ہوچکا تھاورنہ ہم اُسے مزید بتاتے کہ کنجوس لوگ اپنی اس قبیح عادت کے لیے کیسے کیسے جوازگھڑلیتے ہیں۔ہوا یوں کہ شہر کے ایک مشہوربنکار نے جو باہر کے سفر سے لوٹے تھے ائیر پورٹ سے ایک ریڈیو ٹیکسی پکڑی اور گھر آگئے۔ گاڑی سے اتر کر انھوں نے ڈرائیور کو اس کاطے شدہ کرایہ ادا کیا اور ایک بہت قلیل رقم بطوربخشش دی۔ڈرائیور ٹِپ لے کر اپنی ہتھیلی کو حقارت سے دیکھتا رہا۔آخر اس نے کہا”سر، کل میں نے آپ کے بیٹے کو ائیر پورٹ سے لاکراسی جگہ چھوڑا تھا اور اس نے مجھے آپ سے دس گنازیادہ ٹِپ دی تھی۔“ ”دی ہوگی“بنکر نے بے نیازی سے کہا”اس کاباپ اس شہر کا رئیس شخص ہے جبکہ میرا باپ ایک پنشن یافتہ ملازم ہے۔“