بھارت میں موجود اقلیتیں

Mar 27, 2017

رانا انتظار

12بلین آبادی پر مشتمل ملک بھارت کو جنوبی ایشیا میں اہم جغرافیائی حیثیت حاصل ہے ۔ جنوب مشرق و مغرب کی جانب سے خلیج بنگال بحیرہ عرب اور بحرہند اور مغرب ، شمال اور مشرق کی جانب سے اس کی سرحدیں پانچ ممالک سے ملتی ہیں ۔ پاکستان کے مشرق میں واقع بھارت میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ آبادی کا قریباً 80فیصد ہندو ہیں باقی 20فیصد میں مسلمان ، عیسائی ، جین ، سکھ اور پارسی شامل ہیں ۔ 1.2 بلین کی آبادی میں تقریباً 172.2ملین مسلمان 27.8ملین کرسچن ،20.8،ملین سکھ اور 4.5ملین جین شامل ہیں ۔ پاکستان کے آئین کی طرح بھارت کا آئین بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ اقلیتوں کو ان کے حقوق کا تحفظ فراہم کیا جائے ۔ لیکن بھارتی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کو ان کی حقوق کی فراہمی کے سلسلے میں آئینی شق کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے ۔ قومی اور ریاستی قوانین اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو نشانہ بناتے آئے ہیں ۔ مذہبی اقلیتوں پر تشدد ، ان سے ناروا سلوک زبردستی مذہب کی تبدیلی اور ان کو خوف وہراس کا نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں ۔ اس حقیقت کو آشکار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ اس کا ذمہ دار بھارت کا غیر مستعد عدالتی نظا م ہے جہاں ان قوانین کو عمل پیرا نہ کروانے میں حکومتی سرکار ملوث ہے۔
اسکے باوجود بھارت دنیا کے سامنے سیکولر ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ بھارت کی سیاسی جماعتیں اور میڈیا دنیا کے سامنے اقلیتوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کا پرچار کرتی ہیں جبکہ پاکستان کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہاں اقلیتوں کو انکے بنیادی حقوق فراہم نہیں کیے جا رہے۔
مثال کے طور پر بھارت اگر سیکولر ملک ہے تو یہاں زبردستی مذہب تبدیل کو سختی سے ممانعت ہونی چاہیے۔ بھارتی آئین کی حد تک تو بھارت سیکولر ہے کیونکہ اس میں زبردستی مذہب تبدیل کروانے کی سختی سے ممانعت ہے لیکن اگر کوئی اقلیتوں میں سے ہندو مذہب اپنانے کو ترجیح دے تو اس پر حکومت اور آئین کی طرف سے مکمل خاموشی ہے اور ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرکے ان کے مذہب زبردستی تبدیل کروائے جاتے ہیں اور ہندو لڑکوں سے ان کی شادیاں کر دی جاتی ہیں۔ 2014ء میں ریاست اتر پردیش کے ضلع خوشی نگر میں 116 لڑکیوں کا اغوا ہوا۔ یہ شرح بڑھتی گئی 2015ء میں 137 اور 2016ء میں 150 کے قریب لڑکیوں کا اغوا ہوا ان کے مذہب تبدیل ہوئے اور ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں سے کی گئیں بااثر ہندو خاندان اس کے کرتا دھرتا ہیں جن کو پوچھنے والا اس نام نہاد سیکولر ملک میں کوئی نہیں ایک دوسری مثال گائے کی ہے جس سے بھارت کا اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور اصل چہرہ سامنے آجائے گا۔ ہندو مذہب میں گائے کو مقدس مانا جاتا ہے۔ جبکہ دیگر اقلیتوں میں گائے کے گوشت کو خوراک کا اہم وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 48 کے مطابق ذبیحہ گائو کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور اگر کوئی اس اقدام کا مرتکب ہو تو اس کو سزا‘ جرمانہ کا دونوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ گائے ذبیحہ کے مسئلے پر ہندو اور دیگر اقلیتوں میں شدید اختلاف اور کشیدگی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ دلیت‘ عیسائی اور مسلمانوں کے نزدیک گائے کا گوشت غذائیت سے بھرپور ہے عیدالضٰحی کے موقع پر مسلمان سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرنے کے لیے گائے قربان کر تے ہیں۔ ذبیحہ گائو سے متعلق عدالتوں میں بہت دفعہ اس کو چیلنج کیا گیا لیکن افسوس اقلیتوں کی کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔ ذبیحہ گائو کے مسئلے میں مسلمانوں کو خاص نشانہ بنا یا جاتا ہے ستمبر 2015ء میں محمد اخلاق کو ہندو جتھے نے شہید کر دیا۔ اس کو اپنے گھرسے گھسیٹا گیا کیونکہ کسی ہندو نے شرارتاً افواہ پھیلائی تھی کہ اس کا خاندان گائے کا گوشت کھاتا ہے اور اپنے گھر میں ذخیرہ کرتا ہے۔
بھارت میں ذات پات کے نظام کی وجہ غیر برہمنی کے پیروکاروں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ کھشتری ویشن کے بعد شودر ایسی ذات ہے جس کو ہندو برہمن اپنے پاس بھی آنے نہیں دیتے سکول‘ کالج اور یونیورسٹیوں میں نچلی ذات کے ہندو اور اقلیتی طالبعلم ایک جماعت میں پڑھتے ہیں جبکہ برہمنوں کے بچوں کے لیے الگ سہولیتیں کلاس روم اور اساتذہ ہیں۔ اسی طرح ہندو میرج ایکٹ 1955 کے تحت صرف ہندووں کا شادیوں کا قانونی تحفظ ہے اور ان کی شادیوں کا باقاعدہ اندراج ہوتا ہے لیکن باقی اقلیتوں کے لیے ایسا نہیں آئین میں ترمیم کے بعد آنند میرج ایکٹ کے تحت سکھ مذہب کو بھی شادی رجسٹر کروانے کی اجازت دی گئی لیکن ماسوائے ریاست ہریانہ کے اس قانون پر کہیںبھی عمل پیرا نہیں ہو سکا۔
Foreign Contribution Regulation Act 1976 میں 2010ء میں ترمیم کے بعد بھارت میں اقلیتوں کے لیے کام کرنے والی این جی اوز پر پابندی عائدکر دی گئی لیکن بھارتیہ جنتہ پارٹی اور کانگریس کو یہ آزادی ہے کہ وہ غیرملکی فنڈز حاصل کر سکتی ہے۔ حکومت یہ پرچار کرتی ہے کہ یہ فنڈز جمہوریت کو پروان چڑھا رہے ہیں لیکن حقیقت میں یہ اقلیتوں کے استحصال کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ تمام حقائق بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی کمیشن رپورٹ میں موجود ہیں جو بھارتی اقلیتوں کو آئینی و قانونی دشواریوں کے حوالے سے درپیش ہیں۔ ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھنے کے بعد یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ بھارت مذہبی آزادی کے بین الاقوامی معیار کو بھی مدنظر نہیں رکھ رہا۔ UN Declaration of Human Right and Article 18 of International Covenant on Civil and Political Right ہر لحاظ سے اقلیتوں کو ان کے حقوق دینے کے خواہاں ہیں۔ لیکن ان قوانین کر نظر انداز کرنا بھارتی سرکار کو شیوہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیتوں کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اور وہ وہاں بے یقینی پریشانی اور عدم تحفظ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

مزیدخبریں