میرا پچھلا کالم صحت اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار پر تھا، کچھ ’سرکاری‘ دوستوں نے کہا کہ آپ نے انصاف نہیں کیا کیوں کہ اب ہسپتالوں کی حالت پہلے سے کہیں بہتر ہے ، میں نے کہا بقول علامہ اقبال....
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جب تک یہ دوست تنقید برداشت نہیں کریں گے اور اپنا قبلہ درست نہیں کریں گے پاکستان میں کوئی ادارہ ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ بھی انہی سرکاری دوستوں کی مرہون منت ہے کہ پاکستان میں کرپشن مافیا ، سیاست مافیا، ڈاکٹر مافیا، ملاوٹ مافیا، کمشن مافیا، ایجنٹ مافیا، انسانی سمگلنگ مافیا، جوا مافیا ، بھیک مافیا ، کرپٹ مافیا ، پولٹری مافیا ،انسانی اعضاءمافیا ، شوگر مافیا ، میڈیا مافیا ، جعلی میڈیسن مافیا ، گردہ مافیا، قبضہ مافیا، لینڈ مافیا، الیکشن مافیا، ٹمبر مافیا ، ایجوکیشن مافیا، پٹرولیم مافیا، ہسپتال مافیا اور تجاوزات مافیا خوب لوٹ مارکررہے ہیں، اب جبکہ ایک نیا مافیا متعارف کروایا گیا ہے جس کا نام ہے ”اسٹنٹ مافیا“ یہ وہ مافیا ہے جو منافع کمانے کی غرض سے اس قدر بے حس ہو جاتا ہے کہ لوگوں کی جانوں سے کھیلنا اُس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل بن جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ منافع خور عناصر حکومتی سرپرستی میں معاشرے میں موجود ایسے لالچی”دوستوں“ کا انتخاب کرتے ہیںجو چند ٹکوں کی خاطر اپنے آپ کو بیچ کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے ”حق“ کے لیے ایسا کر رہے ہیں....حکومتی سرپرستی کامیں محض دعویٰ نہیں کر رہا بلکہ یہ عدالتوں اینٹی کرپشن کے اداروں سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مذکورہ بالا مافیاز حکومتی سرپرستی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے بہرکیف آج ہم صرف سٹنٹ مافیا کی بات کرتے ہیں۔ میرے ایک قریبی دوست گزشتہ روز میرے گھر آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ گزشتہ ماہ منظر عام پر آنے والے اسٹنٹ سکینڈل میں وہ بھی ”دو نمبر“ اسٹنٹ کا شکار ہوئے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود غریب مریضوں کے دل کی انجیوپلاسٹی کرنے اور پھر غیرمعیاری اور مہنگے سٹنٹ ڈالے جا رہے تھے....میں نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ میوہسپتال میں دل کے مریضوں کو جعلی سٹنٹ فروخت کرنے والا گروہ اس وقت منظر عام پر آیا جب ایک شہری نے ایف آئی اے کواس معاملے کے حوالے سے درخواست دی۔ ایف آئی اے نے اپنے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو مریض بنا کر ہسپتال بھیجا تو جعلی سٹنٹ کے معاملے کے واضح ثبوت مل گئے جس کے بعد ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے چار کروڑ روپے سے زائد مالیت کے جعلی سٹنٹ برآمد کیے....ملزمان کو جو مہنگے سٹنٹ فروخت کر رہے تھے وہ ڈالے ہی نہیں جاتے تھے، اس مکروہ کاروبار میں بعض ڈاکٹر بھی ملے ہوئے تھے....یہ واقعہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے چند برس قبل لاہور کے ہسپتال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں غیرمعیاری ادویات کے استعمال سے 100 سے زائد دل کے مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے.... میرے خیال میں جب اُس واقعہ کے ذمہ داران کا کچھ نہیں ہوا، تو اس سکینڈل کے ذمہ داران کا کیا ہوگا.... ہوگا یہ کہ سب سے پہلے ذمہ داروں کو معطل کر لے انکوائریاں لگائی جائیں گی.... انکوائریوں میں بھی ان سب کے پیٹی بھائی ہی شامل ہوں گے جو خود ہی اشارہ کر دیں گے کہ جب تک میڈیا ’ان‘ ہے تب تک اپنے اپنے گھروں میں نظر بند ہوجاﺅ.... پھر مختصرعرصے کے بعد چند لوگوں کو بحال کر دیا جائے گا، پھر چند ماہ بعد دیگر افراد بھی بحال کر دئیے جائیں گے....
آپ تحقیق کرنے والے اداروںکی رپورٹس پڑھ لیں آپ کے پاﺅں کے نیچے سے زمین نکل جائے گی کہ ہم کس دیس میں رہ رہے ہیں؟ابھی فی الحال ایف آئی اے نے 4کمپنیوں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے جس میں پتہ چلاہے کہ یہ کمپنیاں بیرون ممالک سے فی کلو کے حساب سے تول کر سٹنٹ منگواتی رہیں جس کے مطابق ایک سٹنٹ کی قیمت 5ہزار 700روپے ہے جبکہ یہ سٹنٹ ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے مریض کو ایک لاکھ 80ہزار سے لے کر 2 لاکھ 80ہزار روپے تک فروخت کرتی رہیں....ایک کمپنی نے باہر سے 2لاکھ 50ہزار روپے کے سٹنٹ منگوائے جبکہ مریضوں کو 6 کروڑ روپے میں فروخت کئے جس میں امراض قلب کے ڈاکٹروں نے بھی اپنا حصہ وصول کیا....ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ 8بڑے امراض قلب کے ڈاکٹرز جن میں اکثریت پروفیسرز کی ہے، اس دھندے میں ملوث ہیں، جو کمپنیوں سے مل کر مریضوں کو لوٹ رہے ہیں.... عام پاکستانی یہ کہتا ہے کہ پہلے بھی ان سکینڈلز کی وجہ سے سینکڑوں اموات ہوئی ہیں ،اُس وقت بھی میڈیا پر بہت طوفان برپاہوا تھا۔حکام نے نوٹس لیا تھا بیرون ملک لیبارٹریوں سے ادویات کی جانچ بھی کروائی گئی تھی اور پتہ چلا تھا کہ یہ ادویات جعلی ہیں، لیکن کسی کو کوئی قرار واقعی سزا نہیں دی گئی تھی اگر ہوئی ہو توکوئی سرکاری ادارہ راقم کو ضرور مطلع کیجئے گا.... جس ملک میں چاک سے ڈسپرین تیار کی جاتی ہو اور بچوں کو پلانے والے دودھ میں سرف یا دوسرے مہلک کیمیکل کا استعمال کیا جا رہا ہو وہاں سے کیا بعید! ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف چار فیصد دوا ساز ادارے ایسے ہیں جو ادویات کے لئے اصل اور خالص خام مواد استعمال کرتے ہیں....جبکہ 96فیصد دوا ساز ادارے یہ خام مواد درآمد کرتے ہیں یا درآمد شدہ مواد استعمال کرتے ہیں۔ بیشتر ادارے ادویات کی ”ری پیکنگ“ کاکام ہی کرتے ہیں.... ایلوپیتھک ادویات کاخام مواد عام طور پر ایک ”مافیا“ کی تحویل میں چلا گیا ہے جو اس مواد میں مضر صحت ملاوٹ کرتے ہیں اور اس کی فروخت سے بھاری منافع کماتے ہیں اور یہ وہی عناصر میں جو صرف پنجاب میں سالانہ ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کی جان لے لیتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کی گولی بازار میں 130 روپے کی دستیاب ہے۔ حکومت نے 32 روپے فی گولی کے حساب سے اس کا ٹینڈر منظور کیا ہے۔ اب یہ گولی چاک والی نہیں ہو تی تو کیا ہو گی۔ جو آج بھی بازار میں 130 روپے کی مل رہی ہے۔ جس ملک میں نظام نہ ہووہاں پرائیویٹ ایجوکیشن مافیا کا سر اُٹھانا ، میڈیسن مافیا کو 20روپے والے انجکشن کو 300روپے فروخت کرنا....میٹرنٹی ہسپتالوں میں پیسوں کے عوض پیٹ چاک کرنا....سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں ڈاکٹروں کا رویہ معتصبانہ ہونا اور پھر سرکار کا کوئی سخت ایکشن بھی نہ لینا .... کوئی بڑی باتیں نہیں ہیں.... ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسرے ملکوں کی طرح یہاں پر بھی ایسے سخت قوانین بنائے جائیں کہ جو کسی کی زندگیوں سے کھلواڑ کرے اُس سے بھی اُس کے جینے کا حق چھین لیا جائے.... آپ دور نہ جائیں چین میں جعلی ادویات یا کسی قسم کی جعل سازی کی سزا موت ہے.... جبکہ یہاں کے قوانین ہی 1976ءکے بنے ہوئے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب میں ادویات کی جانچ پڑتال کرنے والی صرف تین لیب ہیں جبکہ جعلی ادویات کے کاروبار کے احتساب کی 9 ڈرگ کورٹس ہیں.... قانون نافذ کرنے اورانصاف فراہم کرنے والوں کی مجبوری ہے کہ 1976ءکے ڈرگ ایکٹ کے تحت جعلی ادویات تیار اور فروخت کرنے کے جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا سات سال قید ہے مگر آج تک کسی بھی ملزم کو اس سزا کا مستوجب قرار نہیں دیا جاسکا.... پاکستان میں رائج نظام اس کھٹارہ اور ناکارہ گاڑی کی طرح ہے جس کے بریک فیل ہو چکے ہوں اور اس کے ڈرائیور کی آنکھوں پر بدعنوانی کی پٹی بندھی ہوئی ہے لہٰذا اس قسم کی گاڑی قوم کو منزل مقصود تک نہیں لے جا سکتی....!!!