اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف کیس کی سماعت کی. سیکریٹری داخلہ ، چئیرمین پیمرا، ایف آئی اے حکام اور علما کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی، سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ پچاسی فیصد مواد ختم کردیا گیا ہے جبکہ 15 فیصد سے زیادہ مواد فیس بک پر ہے، ملزمان گرفتار کئے جاچکے ہیں، 2ملزمان براہ راست اس گھناؤنے کام میں ملوث ہیں، معاملے پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے. سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ وزیر داخلہ نے ستائیس مسلم ممالک کے سفیروں کے سامنے یہ معاملہ رکھا ، بین الاقوامی سطح پر معاملے کو اٹھانے پر اتفاق ہوا، واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے معاملہ اٹھایا ہے. جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ اگر سوشل میڈیا کے مالک پاکستان کیخلاف سوشل میڈیا پرجنگ شروع کردیں تب کیا کریں گے، اسلامی سفراء کا اجلاس بلانا خوش آئند ہے، کیا جس ملک میں یہ کام ہوا اس کے سفیر کو بلانے ہمت نہیں، حکومت نے ہر کام چودھری نثار پر چھوڑ رکھا ہے، آئی ٹی والے دو نمبری کر رہے ہیں، کہا گئے آئی آئی ایکسپرٹ احسن اقبال اور مذہبی امور کے وزیر؟ انوشہ رحمان ئیں اور عدالت کو بتائیں معاملہ حل کیوں نہ ہوا.
عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ہم کسی سیکریٹری یا وزیر کو ابھی طلب نہیں کر رہے. چئیرمین پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا کہ 40 پیجز کیخلاف ایکشن لیا گیا ہے، لوگوں کی ٹیم ایسے مواد کو سرچ کررہی ہے، فیس بک کا ہماری بات ماننا بڑی کامیابی ہے. جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ چار افرد ملک سے باہر چلے گئے ان کا کیا بنا؟؟کسی کو نہیں پتا، کون سی این جی او کیا کام کر رہی ہے ان کی بھی رپورٹ پیش کی جائے.عدالت نے تمام متعلقہ اداروں سے اکتیس مارچ تک رپورٹ طلب کرلی جبکہ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ میں ترمیم سے متعلق پیش رفت رپورٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیا، بعد ازاں سماعت اکتیس مارچ تک ملتوی کردی گئی.