جنگ سے نفرت، محبت کی علامت ،ترقی کی ضمانت

دنیا بھر میں جنگ سے بیزاری اور امن و محبت کے ساتھ رہنے کوترجیح دی جاتی ہے ، معیشت کے بڑھاؤ اور جنگ وجدل سے پاک معاشرے ہی ترقی کی سیڑھیاں چڑھ سکتے ہیں۔اسی طرح ہمارے اس خطے میں بھی جنگ کی بجائے امن کے لئے سرمایہ کاری کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، مگر اس خطے میں افغانستان اس لحاظ سے وہ ملک ہے کہ جہاں کئی عشروں سے بدامنی کی آگ سلگ رہی ہے، اس دوران لاکھوں لوگ جاں بحق ہو گئے، اتنی ہی تعداد میں زخمی یا معذور ہو گئے ہیں۔افغانستان میں امریکی فوج گزشتہ سولہ سالوں سے موجود ہے۔مگر پھر بھی امن نداردکی مثال قائم ہے۔تاہم اس دوران دو امریکی صدور اپنی آٹھ آٹھ سالہ صدارتی مدت ختم کرکے تاریخ کا حصہ بن گئے اور اب تیسرے صدر برسراقتدار ہیں ، جنہوںنے دعویٰ کیا ہے کہ وہ امن بحال کریں گے اور ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ مجھ سے پہلے دور میں دنیا امریکیوں کو بے وقوف بناتی رہی، اب ایسا نہیں ہوگا اور مَیں افغانستان کا مسئلہ بزورِ قوت حل کروں گا لیکن بظاہرزمینی حقائق کے مطابق ایساتو نہیں لگ رہا۔ تاہم ماہرین کی یہ رائے ہے کہ امن قائم کرنے کے لئے مذاکرات کا راستہ ہی بہترین ہے۔اس حوالے سے امن قائم کرنے کے لئے بنیادی تقاضے پورے کرنے چاہیں۔علاقائی طور پر خطے میں پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ اس مقصد کے لئے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کا ایک ریکارڈ بھی ہے۔ امن کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان نے بھی بہت ساری قربانیاں دی ہیں۔حتیٰ کہ پاکستان نے عالمی فورموں پر ہر جگہ اس بات پر زور دیا ہے کہ افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے۔ یہی بات افغان حکام کو بھی بتا دی گئی ہے لیکن بدقسمتی سے صدر اشرف غنی کے بعض ساتھی پاکستان کے بارے میں ویسے ہی بدگمانی کا شکار ہیں اور مودی کے بہکاوے میں آ تے رہتے ہیں۔دوسری جانب پاکستان امن کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔مگر صدر ٹرمپ اس حوالے سے آنکھیں پھیر کر ایسے اقدامات کے راستے پر چل پڑے ہیں جن سے بھارت تو خوش تاہم خطے کا امن متاثر ہو رہا ہے اور اس میں مزید خرابی پیدا ہو گی۔جیسا کہ نئی دہلی میں پاکستانی سفارتی عملے، سفارت خانے کے اہلکاروں اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافے کے بعد پاکستانی ہائی کمشنر کو اسلام آباد میں طلب کر لیا گیا ۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے اسلام آباد میںکہا کہ بھارت میں ہراساں کرنے کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ ملزمان کی تصاویر اور وڈیوز فراہم کرنے کے باوجود بھارتی حکومت نے سفارتی عملے اور ان کے اہل خانہ کے تحفظ کے لئے کوئی مناسب اقدامات نہیں اٹھائے۔نئی دہلی کے واقعہ سے عدم تحفظ کااحساس پیدا ہو رہا ہے۔ عالمی قوانین اورویانا کنونشن کے تحت سفارت کاروں کا تحفظ وہاں کے میزبان ملک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔تاہم بھارت کے رویئے سے ایسے لگتا ہے کہ وہ کسی کنونشن اورانٹر نیشنل قوانین کو خاطر میں لانے کے لئے تیار ہی نہیں ۔لہذا اس سلسلے میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھارت کو ایسی کسی حرکت سے باز رکھے جس کے نتیجے میں اس خطے کا امن واستحکام داؤ پر لگ سکتا ہے۔ ادھرماہرین کاخیال ہے کہ اگر نیٹو فورسز یہ چاہتی ہیں کہ افغانستان میں امن آئے اور نتیجے کے طور پر پورا خطہ اس کے اثرات سے فائدہ مند ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ خطے کے تمام ممالک امن کے لئے اپنی کوششوں میں اضافہ کریں اور الزام تراشی کے اندھیرے سے نکل کر حقائق کی روشنی میں آ جائیں۔دوسری جانب افغانستان میں امن وامان کی مکمل صورتحال اور وہاںمنشیات کے حوالے سے روس کے وزیر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ نیٹو کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں منشیات کے خلاف مہم پر توجہ دے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق روس کے وزیر خارجہ نے ماسکو میں منشیات کے خلاف مہم سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امید کی جا رہی تھی کہ نیٹو افغان حکومت کے ساتھ تعاون کر کے اس ملک میں منشیات کی پیداوار کو کم کرنے کی کوشش کرے گی مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے انسداد منشیات و جرائم کے ادارے یو این او ڈی سی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس سے قبل بھی روسی حکام نے افغانستان میں منشیات کے خلاف مہم میں برتی جانے والی لاپروائی پر امریکا اور نیٹو پر بارہا تنقید کی ہے۔ ادھریورپ اپنے مفادات اور اقدار کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن کردار اداکرنے پر سوچ رہا ہے ،اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ ضروری ہوا تویورپ امریکا کے خلاف بھی کھڑا ہونے سے گریز نہ کرے گا۔ماہرین تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کا عالمی غلبہ اب آہستہ آہستہ تاریخ کا حصہ بنتا جا رہا ہے، عالمی سطح پر پیدا ہونے والے خلا کو پْر نہ کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکا یورپ کا قریبی اتحادی ہے مگریورپ کہتا ہے کہ اس کے ساتھ اختلافات پر بات کی جانی چاہیے اور اسے ریڈ لائن عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے جرمن وزیر خارجہ نے خاص طور پر روس کے خلاف امریکی پابندیوں کا حوالہ دیاہے، جس کی وجہ سے یورپ میں توانائی کی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کو یہ معاہدہ ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ جرمن وزیر خارجہ نے امریکا کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پالیسی پر بھی تنقید کی۔ خطے میں تمام ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ کے لئے منصوبہ بندی اور واضح سمت فراہم کرکے سنجیدگی سے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے ، باہمی اعتماد سازی میں مسلسل اضافہ ، باہمی استفادے پر مبنی تعاون کو فروغ دے کرخطے کی ترقی کے لئے اختلافات سے مناسب انداز سے نمٹنا چاہیے۔ کیونکہ موجودہ صدی اقتصادی تبدیلی اور ترقی کے عمل کو مشترکہ طور پر فروغ دینے کی صدی ہے۔ یہ وقت ملکوں کے درمیان معیشت و تجارت ،سرمایہ کاری ،بنیادی تنصیبات اور مینوفیکچرنگ سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کو مثبت طور پر توسیع دینے کا وقت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...