یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جوقومیں اپنے مشاہیر اور محسنوں کو نظر انداز کردیتی ہیں تو زوال ان کا مقدر ٹھہرا۔ یہی کچھ محسن پاکستان اور عالمی شہرت یافتہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ہو رہا ہے جسے حاکموں کی بے حسی اور بے بسی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر خان کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے پاکستان ایسے ترقی پذیر ملک کو عالم اسلام کی پہلی ایٹمی و میزائل قوت دے کر ناقابل تسخیر بنا دیا۔ بس پھر کیا تھا بڑی طاقتیں ان کے در پہ آزار ہوگئیں اور انہوں نے اس مقصد کے لیے ہمارے حکمرانوں کو استعمال کیا اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف اپنے اقتدار کی طوالت اور ڈالروں کی چمک کے سامنے ملکی و قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر امریکی خوشنودی کے حصول کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف بے سروپا اور خود ساختہ الزامات لگا کر ان پر پابندیاں اور ناروا سلوک رکھا گیا ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کے ایٹمی اور میزائل کارنامے کی بدولت پوری قوم ان سے والہانہ پیاراور دل وجان سے قدر کرتی ہے اور بلاشبہ اس وقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کے سب سے بڑے آدمی ہیں نہ صرف ایٹمی شعبہ میں وہ نابغہ روز گار ہیں بلکہ وہ پاکستان کی واحد شخصیت ہیں جن کو ملک کے تین اعلیٰ سول اعزازت سے نوازا گیا ہے۔ پہلا ایوارڈ14اگست 1989ء میں ہلال امتیاز، دوسرا 14اگست 1996ء میں نشان امتیاز اور تیسرا 23 مارچ 1999ء میں دوبارہ نشان امتیاز دیا گیا۔اس کے باوجود کہ پرویز مشرف نے 27مارچ 2001ء کو بطور ملک کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر اپنی تقریر میں ان کی خدمات کو تفصیلی طور پر زبردست خراج تحسین پیش کیا مگر بعد میں ڈالروں کی چمک نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا اور وہ اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لیے اپنی مذکورہ تقریر میں ڈاکٹر خان کی شان میں بیان کردہ تعریف ، توصیف اور اوصاف سے یکسر یو ٹرن لے لیا۔ مگر کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں کے مصداق جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے یہ تجویز دے کر عوام کے دل جیت لیے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو آئندہ ہونے والے عام انتخابات سے قبل عبوری وزیر اعظم مقرر کیا جائے گو کہ عوامی جذبات یہ ہیںکہ ڈاکٹر خان کو ملک کا صدر مقرر کیا جائے تاہم امیر جماعت اسلامی ستائش کے قابل ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے یہ تجویز پیش کرکے قوم کے جذبات کا احترام کیا ان کی اس معتبر اور محترم تجویز کی دوسری پارٹیوں کو بھی حمایت اور تائید کرنی چاہیے خصوصاً پاکستان مسلم لیگ ن کے میاں شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو، تحریک انصاف کے عمران خان، متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن، سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، نائب صدر پیر اعجاز ہاشمی ، سیکرٹری اطلاعات اویس نورانی، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور سینیٹ کی اپوزیشن لیڈر شیری رحمن کو چاہیے کہ وہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قومی خدمات کے اعتراف اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیے متفقہ طور پر عبوری وزیر اعظم مقرر کرنے کی تجویز کی حمایت کریں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ پاکستان کو ایٹمی و میزائل قوت بنانا ڈاکٹر خان کی متنوع شخصیت کا ایک پہلو ہے جبکہ رفاحی اور فلاحی خدمات ان کی ہمہ گیر شخصیت کا دوسرا پہلو ہے جس کے تحت ان کی زیر نگرانی کئی تعلیمی اور طبی ادارے عوامی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ طبی اداروں میں نادار اور مستحق افراد کو نا صرف طبی سہولیات بلکہ ادویات بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے لاہور میں ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال خاص طور پر قابل ذکر ہے جو 24فروری 2015ء سے اب تک لاکھوں غریب مریضوں کو بغیر کسی معاوضہ کے علاج و معالجہ فراہم کررہا ہے۔ اس ہسپتال میں لیبارٹری ٹیسٹ، ایکسرے ، امراض چشم اور ڈائیلسز کی سہولیات مفت فراہم کی جارہی ہیں اور اب اس کی نو منزلہ اور تین سو بستروں پر مشتمل نئی عمارت تیزی سے تکمیل کے مراحل کی جانب گامزن ہے جہاں ہر مرض کے ماہر ڈاکٹرز غیر مراعات یافتہ اور مستحق طبقے کو اپنی طبی خدمات اور ادویات بلامعاوضہ فراہم کریں گے اس سلسلے میں مخیر اور درد مند دل رکھنے والی شخصیات سے گزارش ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور ہسپتال کی مالی یا عمارتی مواد کی شکل میں استعانت فرمائیں۔