یاد رہے ’’مذہب‘‘ محض لفظ نہیں ، عمل کا نام ہے

قارئین دنیا میں شاید ہی ایسی کوئی قوم ہو جو اپنا الگ مذہب اور اصول و ضوابط نہ رکھتی ہو یہ الگ بات ہے کہ ان کا مذہب کیا ہے؟ کیا کیا اصول و ضوابط رکھتا ہے؟ یا یہ کہ کیا وہ مکمل طور پر بنی نو انسان کی فلاح و اصلاح کا مقصد پورا کرتا ہے؟ تاہم یہ طے ہے کہ مذہب انسان کی بنیادی بنیاد ہے بنیادی ضرورت ہے بلکہ ہماری (خاص طور پر مسلمانوں کی) اولین و آخرین بلکہ حتمی ترین پناہ گاہ ہے یادرکھیئے مذہب کی اپنی ایک غیر معمولی طاقت ہے جس کے آسرے کے بغیر انسان کے جسم و جان کا زوال پذیر ہوجانا تو حتمی ہے کہ اس کے ذہن عناصر کی ترتیب تک بگڑ سکتی ہے اور وہ خود سے خود بچھڑ سکتا ہے اس اعتبار سے اسلام ایک ایسا مکمل مذہب بلکہ عمل ہے جو انسانی بنیادوں پر کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں اور مسلمانوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا اس کا بنیادی مقصد ہی رواداری، انسان دوستی بلکہ ناانصافی، استحصال اور ظلم و تشدد کے خاتمے پر مشتمل ہے مذہب کے اس تمام تر تناظر میں نئی نسل کو اخلاقی بے راہ روی سے بچانے کیلئے عملی طور پر مذہب کے دائرے میں لایا جائے تاکہ معاشرہ مذہبی تقدس سے بہرہ مند ہوکر صحیح خطوط پر قائم ہوسکے۔ قارئین حقیقت یہ ہے کہ روحانی انتشار اور اعلیٰ انسانی اقدار کے موجودہ کال کے موسم میں اگر مذہبی فرائض کی پرخلوص ادائیگی پر توجہ دی جائے اسے عملاً زندگی میں داخل کرلیا جائے تو دنیا سے جنگی جنون اور روحانی بے اطمینانی کا یقینی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ مجھ سے ایک بار حقوق انسانی کی عالمی تنظیم سالیڈیرٹی انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ہونے والی بین المذہب کانفرنس میں میرے صدارتی خطاب کے بعد ایک غیر ملکی مندوب نے پوچھا تھا مذہب اور روحانیت کے تجربات آپ کا سرمایہ حیات میں ہیں اس حوالے سے آپ لکھی بھی رہتی ہیں ’’مختصر‘‘ بتائیے مذہب کی تعریف کیا ہے؟ میں کہا تھا ہر وہ کام جسے کرکے آپ کا ضمیر مطمئن ہومذہب ہے۔
میرے نزدیک پورا مذہب صرف چار الفاظ پر مشتمل ہے ’’خدا دیکھ رہا ہے۔
یادرکھیئے صرف مذہب ہی میں حتمی پناہ، کل سلامتی اور اکمل سکون ہے مذہب نہ اُتارنے جاتے تو تمام انسان و حشیوں کی طرح ایک دوسرے کو پھاڑ کھاتے۔
ہمارے مذہب کی بنیاد نیت پر ہے باقی ارکان بعد میں شروع ہوتے ہیں بلکہ ان پر پانچ ارکان کی بنیاد بھی بجائے خود نیت پر ہے ۔ مگر حیرت ہے اپنی نیت کی راستی کے بارے میں کوئی بھی نہیں سوچتا دوسروں کیلئے مذہب کا پرچار جاری رہتا ہے ۔
دنیا کا کوئی مذہب تکبرنہیں سکھاتا مٹ کررہنے پر زور دیتا ہے اس لئے کہ جتنا زور خود کو مٹانے پر لگتا ہے اتنا بنانے پر نہیں لگتا۔
نیکی شریعت کی اور شریعت مذہب کی اولاد ہے ۔
بنیادی طور پر دنیا میں انسان کے دوکام ہیں زندگی گزارنا اور مرجانا درمیانی سارا عرصہ عبات کیلئے ہے مذہبی ضوابط پر مکمل عملدرآمد کیلئے ہے اخلاقیات، مذہب اورمذہب ہی اخلاقیات ہے ۔
مذہب آپ کی کھری نیت ہے اگر آپ بدنیت ہیں تو آپ کا کوئی مذہب نہیں ہے۔
انسانی زندگی کا بنیادی مقصد خود کو جنون الٰہیہ کے حوالے کر دینے کا نام ہے تب اسے ہر بات من جانب اللہ نظر آنے لگے گی اور یہی راست لائن ہے یادرکھیئے مذہب کے سلسلے میں آپ دلیل، منطق اور خرد کو زندگی میں داخل نہیں کرسکتے ان کی پڑیا باندھ کر ایک طرف رکھ دیں۔ میرے نزدیک دنیا میں ظلم، گناہ اور کمینگی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ صرف کفر وایمان کی دو طاقتیں آپس میں متصادم ہیں کیونکہ جو شخص خدا کے وجود پر یقین رکھتا ہے وہ یہ تنیوں کام کرہی نہیں سکتا اور جو یہ تینوں کام کرتا ہے وہ خدا کو نہیں مانتا۔ بظاہر مذہب عرفان اور روحانیت تنیوں الگ الگ الفاظ ہیں مگر سب کی بنیاد شریعت ہے۔
کہاجاتا ہے مومن بننا بہت مشکل ہے میں کہتی ہوں قبر میں جانے تک مسلسل مسلمان رہنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے کیونکہ ہر انسان اپنے اپنے اندر اپنی نارسا خواہشات کی وجہ سے ہر لمحہ مذہب سے متصادم رہتا ہے اور اسے قصور وار کہتا ہے مومن بننے کا اس کے پاس وقت ہی نہیں ہے ۔
مسلمانوں کا اس سے بڑھ عملی کفر اور کیا ہوگا کہ ہوش سنبھالتے ہی سب سے پہلے کلمہ پڑھ کر اپنے رب کے وجود کی شہادت دیتے ہیں بعد میں موت تک دوسروں کے وجود کی شہادت دیتے ہیں بعد میں موت تک دوسروں کو محض اپنے وجود کی شہادت دیتے اور لیتے ہوئے ختم ہوجاتے ہیںآخر میں قارئین کرام کہنا ہے کہ مذہب لفظ کو محض نہ سمجھئے اسے عملاً برتنے بلکہ اس کے مقدس احکامات کو جزو جان و ایمان بنالیں دونوں دنیائوں میں اجر آپ کا منتظر ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...