ایرانی ولایت فقیہ‘ سعودی ایٹم و قطری امور

سفارت خانہ ایران کے پریس اتاشی جناب سید عباس بدر کا بہت بہت شکریہ کہ انہوں نے میرے 6 مارچ کو شائع شدہ کالم ’’جہنم بنا مشرق وسطیٰ اور ترک و کرد مسئلہ‘‘ پر اپنا ردعمل پیش کیا جسے نوائے وقت اسلام آباد نے 11 مارچ کو شائع کر دیا۔ مجھے سفیر ایران جناب مہدی ہنر دوست کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے کہ میں نے ولایت فقیہ پر مبنی سیاسی ایران … کے فیصلہ سازی اور عملی برآمدگی سیاسی و مذہبی انقلاب پر مسلسل تنقید کی ہے۔ تب بھی جناب سفیر محترم نے مجھے میریٹ ہوٹل میں ایران کے قومی دن کی تقریب میں مدعو کیا تھا۔ میں جناب مہدی ہنر دوست سفیر ایران اور جناب سید عباس بدو‘ پریس اتاشی کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ بیٹھیں اور ولایت فقیہ کی حمایت و تائید میں اپنے دلائل پیش کریں۔ میں ایمانداری سے یہ مؤقف سنوں گا اور جو صحیح مؤقف ہوگا‘ وہ قبول بھی کروں گا۔
میں جب ایرانی ولایت فقیہ روحانی شہنشاہت پر تنقید کرتا ہوں اور اسے مشرق وسطیٰ کے ہمہ گیر مسائل کی جڑ قرار دیتا ہوں تو اس کی تائید مجھے موجودہ ایرانی معاشرے اور سیاسی عمل سے ملتی ہے۔ سابق صدر رفسنجانی‘ سابق صدر خاتمی کا بہت قدردان ہوں کہ ان صدور کے عہد میں سعودی عرب سے تعلقات کچھ نہ کچھ موجود تھے جبکہ احمدی نژاد کے دوسرے عہد میں سعودی عرب شاہ عبداللہ کی قیادت میں ایران سے مکمل طورپر ناراض ہوا۔ اس ناراضی کا سبب ایرانی پارلیمنٹ اور ایرانی صدر نہیں بلکہ ولایت فقیہ کا شہنشاہی۔ روحانی نظام ہے۔26 مارچ کو نوائے وقت میں خبر ہے کہ پریس میں سعودی ڈپٹی جنرل انٹیلی جنس چیف میجر جنرل احمد عربی نے مؤقف پیش کیا ہے کہ ایران اپنی ملیشیائوں کی مدد سے خطے میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ 
انسداد دہشت گردی و انتہاپسندی کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس میں جنرل عسیری نے دو ٹوک کہا ہے کہ یمن‘ شام‘ لبنان میں ایران نے اپنے حامی پال رکھے ہیں جن کی مدد سے دہشت گردی پھیلائی جا رہی ہے۔ قطر کے حوالے سے سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر کا مؤقف ہے کہ ان کا ملک قطر کے اپنی غلطیوں کی اصلاح اور واپس خلیجی دھارے میں آنے کیلئے مؤثر اقدامات کرے گا۔ اماراتی و سعودی و قطر تنازع میں اس قلم کار نے کھل کر امارات‘ سعودیہ‘ بحرین‘ مصری مؤقف کی تائید میں تقریباً 9 کالم لکھے تھے۔ قطر کو اپنے حجم اور زمینی جغرافیے کی روشنی میں پڑوسی ممالک سعودیہ‘ بحرین‘ امارات کی بات ماننا ہوگی۔ یہی عملی زمینی سیاسی حقیقت ہے۔ 23 مارچ کی قومی تقریب میں مصر کے مفتی اعظم ڈاکٹر شرقی ابراہیم شریک ہوئے۔ امارات نے فوجی دستہ کے ذریعہ شرکت کی۔ اردن نے ثقافتی طائفہ کے ذریعے بہت عمدہ محبت نامہ پیش کیا ہے۔ گزشتہ برس سعودیہ و ترکی کے فوجی دستے شریک ہوئے۔ دوبارہ ریاض کی طرف چلنا ہوگا۔ 25 مارچ کو شامی دیوان کے مشیر سعود التحطانی نے قطر کو باور کرایا ہے کہ آپ لوگ جو بھی کوشش کرلیں مگر بحران کا حل ریاض کے پاس ہی ہے۔ جناب التحطانی نے یاد دلایا کہ ریاض وہی ’’ریاض‘‘ ہے جہاں آپ (قطر) نے 2013ء اور 2014ء میں سب کے ساتھ دو معاہدوں کی پاسداری کا عہد کیا تھا اور پھر تمام عہد اور حلف توڑ دیئے تھے۔ انہوں نے موجودہ ریاض کو شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا (جدید) ریاض بھی قرار دیا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق غوطہ سے شامی محصورین نکل گئے‘ تاہم یہ قلمکار بشارالاسد کو جابر اور ظالم لکھنے پر مجبور ہے۔ بحرین کو بشارالاسد کی طرح کی ’’غلطی‘‘ چھوڑ دینی چاہئے۔ بحرین کے ان شہریوں کو حکومت میں اشتراک دینا چاہئے جو شدید اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ بحرین کے شیعہ شہریوں کو مسلسل نظرانداز کرنے کی غلطی کی نشاندہی پر مجبور ہوں۔ یہ کیسے مناسب ہے کہ ہم اقلیتی علوی بشار الاسد کی اکثریت سنی آبادی کو نظرانداز کر کے ان پر جبر و ظلم کی شدید مذمت کریں مگر بحرینی بادشاہت نے جو منفی رویہ اپنایا ہوا ہے اسکی مذمت نہ کریں۔ یمن کے حوالے سے ہم اماراتی و سعودی موقف بھی کو درست سمجھتے ہیں۔ یمن میں حوثیوں کی مدد کرنے کا ایران کا اقدام ناقابل قبول ہے۔ سعودیہ کو یمن میں القاعدہ سے بھی شدید نقصانات کا سامنا رہا ہے جبکہ ایران کو القاعدہ یا اسامہ کے خاندان و سوچ سے ہرگز نقصان نہیں پہنچا۔ اس قلمکار نے 1996ء سے اسامہ بن لادن اور اس کی القاعدہ کو غلط کہا ہے ان کی جدوجہد کو غیر اسلامی اور غیر شرعی لکھا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکہ میں جا کر 15 مارچ کو زبان کھولی ہے کہ ’’ایران نے ایٹم بنایا تو ہم بھی بنائیں گے‘‘۔ راقم نے تو دو عشرے قبل ہی سعودی ذہن کو کالموں کے ذریعے متوجہ کیا تھا کہ ’’سعودیہ کو ایٹمی وجود کی طرف تیزی سے سفر کرنا چاہیے اور اپنی عسکری قوت کو قابل تسخیر بنانا چاہیے۔ یہ ایٹمی نصیحت خاکسار نے جنرل مشرف کے سعودی پاکستانی زریں عہد دوستی میں بھی بار بار لکھی تھی۔ کیا نواف المالکی بتانا پسند فرمائیں گے کہ سعودی ذہن اور ریاض فیصلہ سازی سے وابستہ افراد اتنے سست و کاہل کیوں ہیں؟ 
پس تحریر: ترک صدر طیب اردوان نے حال ہی میں 58 اسلامی ممالک پر مبنی ’’اسلامی فوج‘‘ قائم کرنے کا عندیہ اور خاکہ پیش کیا ہے۔ ہم نہایت ادب سے ترک صدر کے اس موقف کو غلط لکھ رہے ہیں کیونکہ پہلے ہی ریاض کی کوششوں سے جنرل راحیل شریف کی زیرقیادت اسلامی ممالک کی عسکری قوت کا وجود سامنے آ چکا ہے۔ ترک صدر کو ترک عثمانی خلافت کی بحالی کی طرف جاتے راستوں پر اپنے سفر کو ختم کر کے ریاض کی کوششوں سے وجود میں آنے والی عسکری اسلامی طاقت کا دست و بازو بننا چاہیے۔ ویسے ہمیں طیب اردوانی بہت پسند ہیں۔

ای پیپر دی نیشن