پاکستان سُپر لیگ …تجزیہ و احتساب!

کرکٹ کا کھیل ملک میں اِس قدر مقبول ہو چکا ہے کہ اس نے باقی سب کھیلوں کو پسِ پُشت ڈال دیا ہے۔ ہاکی، کبڈی، کُشتی وغیرہ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سکواش میں پاکستان ایک طویل عرصہ تک چیمپئن رہا۔ جہانگیر خان اور جان شیر خان کے ناموں اور کارناموں سے عام شہری ناواقف رہا۔ اسے اس بات کا ادراک ہی نہ تھا کہ سکواش کی دُنیا میں پاکستان کا نام کس قدر عزت و وقار سے لیا جاتا ہے۔ اُنہیں اتنی ’’شہرت‘‘ بھی نہ ملی جتنی عزیری عمر اکمل کو ٹریفک سارجنٹ سے دنگا فساد کرنے پر حاصل ہوئی تھی یا خان آفریدی کو بال کی کھال اُتارنے پر ملی تھی۔
ویسے تو گزشتہ ستر برسوں میں کئی چیئرمین آئے مگر دو بوجوہ بہت مقبول ہوئے ۔ ائیرمارشل نور خان اور ’’ہردلعزیز‘‘ نجم سیٹھی صاحب! ان کے علاوہ دیگر چیئرمینوں کا ذکر تو اجمالاً ہی کیا جا سکتا ہے۔ حفیظ کاردار یقیناً ایک بااصول انسان تھے۔ خود بھی کرکٹر رہے لیکن ایک بُنیادی حقیقت فراموش کر بیٹھے۔ حاکمانِ وقت انعام و اکرام اپنے ہاتھ سے تقسیم کرتے ہیں اور ناخوشگوار کام ماتحتوں کو سونپتے ہیں خود ’سر‘ خود ’بیں‘ اور MAVERICK کھلاڑیوں کو لگام ڈالنے کا ٹاسک بھٹو صاحب نے انہیں سونپا۔ کاردار نے اُن کا نمدا کسنا چاہا تو سب پلیئرز نے عملاً بغاوت کر دی۔ لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔ جب عوامی لیڈر نے دیکھا کہ پانسا پلٹ گیا ہے تو اُنہیں آدابِ حُکمرانی کا نادر نسخہ استعمال کرنا پڑا۔ کاردار کو ہی فارغ کر دیا گیا۔ اس درمیان کافی سربراہ آئے جن کا تفصیلی ذکر تضیع اوقات ہو گا۔ غالب اکثریت سفارشیوں کی تھی۔ اِس قبیل میں دو لوگوں کا نام بڑی سہولت کے ساتھ لیا جا سکتا ہے۔ اعجاز بٹ اور ذکاء اشرف! اِن دونوں میں ایک قدر مشترک تھی۔ دونوں آصف علی زرداری کے منظورِ نظر تھے۔ بٹ صاحب وفاقی وزیر احمد مختار کے قریبی رشتہ دار تھے۔
بٹ صاحب اپنے بے ہنگم اور بے ڈول جسم کے باوصف بڑے نٹ کھٹ انسان تھے۔ اس اعتبار سے انہیں کرکٹر بھی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے زندگی میں چند ٹیسٹ میچ بھی کھیلے۔ اُس وقت حیران کُن حد تک دُبلے پتلے تھے۔ (PENCILTHIN) اُن دنوں ہیلمٹ اور زرہ بکتر پہننے کا رواج نہیں تھا۔ تیز رفتار بائولر گیند کراتے ہوئے ہوّا نظر آتے۔ انکی خوبی یہ تھی کہ بال چاہے جسم کے کسی حصے پر بھی لگتا، پھوٹتی نکسیر ہی تھی۔ موصوف کی واحد خوبی یہ تھی کہ اُنہوں نے اہل صحافت کو تفننِ طبع کے کئی اسباب فراہم فرمائے۔ جب بھی ان کا ذکر ہوتا، ہنسی کا فوارہ ایک پہاڑی چشمے کی طرح پُھوٹتا۔ ذکاء اشرف بھی زرداری کی دریافت تھے۔ بنیادی طور پر آصف علی ایک جوہری ہی نہیں بلکہ نایاب ہیروں کی تلاش اور دریافت میںبھی جواب نہیں رکھتے۔ یہ ’’انمول ہیرا‘‘ انہوں نے حیدر آباد کی کوئلوں کی کان سے نکالا۔ غالب نے وفاداری کے ساتھ استواری کی شرط قائم کی تھی۔ ذکاء صاحب میں دونوں خصوصیتیں بدرجہ اَتم موجود تھیں، اسکے علاوہ بھی کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ انگریزی زبان کا محاورہ ہے۔
THE BEST WAY TO ENTER INTO ONE,S HEART AND MIND IS THROUGH ONE,S STOMACH
اگر یہ بدیشی مہمان برصغیر نہ آتا تو بات کرنے میں بڑی دشواریاں پیش آتیں۔ ذکاء صاحب کے مخالفین انہیں کم پڑھا لکھا ہونے کا طعنہ دیتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں سمجھتے۔ ہو سکتا ہے انہیں باہر کے ممالک میں گُفت و شنید میں کچھ دشواریاں پیش آتی ہوں لیکن یہ کوئی ایسی بڑی کمزوری نہیں ہے۔ کیا انگریز یہاں آ کر اُردو میں بات کر سکتے ہیں؟ یہ جتنا عرصہ رہے، اُسے ہنگامی دور ہی کہا جا سکتا ہے۔ مقدمہ بازی، بیان بازی، ہرزہ سرائیوں سے ان کا پالا پڑا تو سیٹھی جیسے انسان سے، جس نے نہ صرف ہرگھاٹ کا پانی پیا ہوا تھا بلکہ خواص کو اپنے گھاٹ کی چُسکیاں بھی لگواتا تھا۔ ہم انہیں مشورہ دینگے کہ دل چھوٹا نہ کریں۔ شجرِ سایہ دار سے چمٹے رہیں، کبھی نہ کبھی تو بہار آئے گی، جو مزّہ کرکٹ بورڈ کی چیئرمینی میں ہے وہ چینی کے کاروبار یا کوئلہ کی تجارت میں کہاں! انہیں اتنی تشہیر تو ساری عمر میں نہیں ملی ہو گی جتنا EXPOSUR'E ' چند ماہ کی چیئرمینی نے عطا کیا۔ بات نور خان اور ’سیٹھی صاحب کی ہو رہی تھی‘ تان کہاں جا کر ٹوٹی ہے۔ اِس کی ایک وجہ تو غالب کے انداز میں بیان کی جا سکتی ہے ۔ …؎
ہرچند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
نور خان ہراعتبار سے ایک بہترین انسان تھے۔ ٹمن کا وہ چھوٹے قد اور قبول شکل و صورت والا شخص نہایت ایماندار، مدّبر، مفکر، مثبت سوچ اور انتظامی صلاحیتیں رکھتا تھا۔ ائیر فورس کی کمان سنبھالی تو 1965ء کی جنگ میں ہندوستان کو تگنی کا ناچ نچوایا۔ پی آئی اے میں آیا تو ’’کُھل گیا تھا مُلک و ملت پر سلیمانی کا راز‘‘ ہاکی اور کرکٹ کا چارج لیا تو دونوں کھیلوں کو تحتِ الثریٰ سے نکال کر سدرۃ المنتہیٰ تک لے آیا۔ ’’وژن‘‘ اپنی جگہ ، دراصل کوئی شخص اس پر الہاّم کی انگلی نہیں اُٹھا سکتا تھا۔ کھلاڑیوں کی سلیکشن میرٹ پر ہوتی۔ سفارش، اقرباء پروری کا نام و نشان تک نہ تھا۔ کسی کو جرأت ہی نہ ہوتی کہ اپنے آدمی کو آگے لائے۔ ہر کھلاڑی کو عزت دی لیکن گروہ بندی کی اجازت نہ تھی۔
آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن جب بھی پاکستان کرکٹ کی عظمت ، وقار اور شاندار ماضی کی بات چھڑے گی توجو چہرہ پردہِ ذہن پر ضرور اُبھرے گا، وہ ائیر مارشل نور خان کا ہو گا۔ اب سیٹھی صاحب کا ذکر ہو جائے! کسی بھی لکھاری کو ایک بات کا ادراک ضرور ہونا چاہئے 'PERCEPTION' حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ کسی بھی ’’مقبول‘‘ شخصیت پر تنقید کرنے سے کئی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تبصرہ نگار خود بھی تنقید کی زد میں آ سکتا ہے۔ بالخصوص ایسے شخص کا ذکر جو میڈیا مینجمنٹ کا ماہر ہو۔ جس کا ایک ہاتھ لوگوں کی نبض پر اور دوسرا بورڈ کی جیب میں ہو! جس کے پاس صرف زور اور زر ہی نہ ہوں بلکہ اُنکے استعمال کا گُر بھی جانتا ہو!
عام آدمی سمجھتا ہے کہ سیٹھی کو میاں نواز شریف نے اِس مرتبے اور مقام تک پہنچایا ہے، اپنی کردہ اور ناکردہ خدمات کے عوض۔ یہ تین ماہ تک عبوری حکومت میں پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے۔ وہی وقت گرم لوہے پر ضرب لگانے کا تھا جو انہوں نے نہایت سُرعت کے ساتھ لگائی۔ ہم ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ انہیں اس مقام اور مرتبے تک میاں صاحب سے زیادہ عمران خان نے پہنچایا۔ بلا سوچے سمجھے پینتیس پنکچروں کا الزام! اِس ہرزہ سرائی کو سیٹھی نے عطیہ خداوندی سمجھا۔ میاں نواز شریف کو باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ میری تمام رسوائی اور بے عزتی آپکی وجہ سے ہوئی ہے۔ اب کچھ نہ کچھ تلافی مافات چاہئے۔ زیربار میاں صاحب نے شاہی انداز میں پوچھا۔ مانگ کیا مانگتا؟‘‘ ایک چیئرمینی کا سوال ہے بابا! نجم صاحب نے اس وقت تک اپنی صحافیانہ نگاہیں میاں صاحب کے چہرے پرگاڑے رکھیں جب تک انہوں نے نہ کہا ’’منجور ہے!‘‘
شیکسپیئر کے ایک کردار میکبتھ نے کہا تھا ’’صرف شاہ بننا کافی نہیں ہے شاہی کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے۔‘‘ اُس اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے اپنے اقتدار کو ہر لحاظ سے مضبوط و مستحکم کیا ہے۔ ذکاء اشرف کو عدالتوں میں مات دی، شہریار کو ہندوستان بھیج کر ذلیل و رسوا کرایا۔ ہندو غنڈوں اور بلوائیوں نے انکے ہوٹل کا گھیرائو کر رکھا تھا اور ’بیگم صاحبہ ممبئی کے بازاروں میں شاپنگ کر رہی تھیں۔ پتہ نہیں مستقبل کا مورخ ہماری روش پر کس انداز میں تبصرہ کریگا۔
اب کے یہ دُور کی کوڑی لائے ہیں۔ انکے ذہن رسا نے ساری قوم کو شیشے میں اُتار دیا ہے۔ اس قدر میڈیا (HYPE) پیدا کر دی ہے کہ ہر اختلافی آواز دب کر رہ گئی ہے۔ عمران جیسے مقبول عوامی لیڈر نے جب غیر ملکی کھلاڑیوں کیلئے ’’ریلو کٹے‘‘ کی اصطلاح وضع کی تو ہر طرف سے صدائے احتجاج بلند ہونا شروع ہو گئی۔ بات کہنے کا بھی ایک سلیقہ ہوتا ہے جو سادہ لوح خان کونہیں آتا۔ اتنا ہی کہہ دیتا کہ کمزور کھلاڑی ہیں تو کافی تھا پہلے تو قومی ٹورنامنٹ غیر ممالک میں کرانا ہی محل نظرہے اخباری اطلاعات کے مطابق شائقین بہت کم تھے اس لئے نقصان کا بھی احتمال ہے۔
کوئٹہ لاہور میں اس لئے ہار گیا کہ اسکے دو بہترین کھلاڑی شین واٹسن اور کیون پیٹرسن پاکستان نہیں آئے۔ قوم کو باور کرایا گیا تھا کہ وہ پاکستان ضرور آئینگے۔ اس ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ اسی طرح کئی اور کھلاڑی نہیں آئے۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کی اکثریت کی اس وقت دنیائے کرکٹ میں مانگ نہیں ہے۔ باایں ہمہ NOTHING SUCCEED LIFE SUCCESS اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سیٹھی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...