لاہور( حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس) پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا ہے کہ شعیب ملک کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی زبان نہیں بولنی چاہیے، ڈمی کپتان کا کوئی فائدہ نہیں ہے، جو کام پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہے وہ اسے کرنا چاہیے، کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ جو ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے ہمیں اسکا اندازہ نہیں تو وہ غلط ہے، کسی کو اچانک خیال آیا ہے کہ عالمی کپ کی تیاری کرنی ہے، کیا ورلڈکپ کی تیاری ایسے کی جاتی ہے، آسٹریلیا کے خلاف سینئر کرکٹرز کو ڈراپ کرنے کے فیصلے کو نادانی کہا جا سکتا ہے، جو متبادل پلیئرز شامل کیے ہیں ان میں سے کوئی بھی عالمی کپ کھیلنے والا نہیں ہے، کبھی کرکٹرز بھی آرام لیتے ہیں، کرکٹر کی لائف ہی کتنی ہوتی ہے، ہمیں نظر نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کون کیا کر رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوائے وقت کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شاداب خان، بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی کو آرام نہیں دیا گیا۔ انہیں فٹنس مسائل کی وجہ سے آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے لیے ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔کھلاڑی ہمیشہ خراب کارکردگی اور فٹنس مسائل کی وجہ سے ٹیموں سے باہر ہوتے ہیں۔ میں پاکستان کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلا ہوں انہوں نے بہترین کرکٹ کھیلی اور بہت کرکٹ کھیلی انہوں نے تو کبھی ریسٹ نہیں لیا البتہ فٹنس مسائل کی وجہ سے وہ ضرور باہر ہوئے اور پھر کم بیک بھی کیا، آسٹریلیا کی وہ ٹیم جس نے دس سال تک دنیائے کرکٹ پر حکمرانی کی ان میں کتنے کھلاڑی آرام کی وجہ سے باہر بیٹھے، ویسٹ انڈیز کی ڈریم ٹیم کے کتنے کرکٹرز آرام کی غرض سے باہر بیٹھے۔ محمد عباس ٹیسٹ میچ کا گیند باز ہے، عابد علی چار روزہ کرکٹ کا اچھا بیٹسمین ہے، عابد علی کو اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ون ڈے میچوں میں ٹیم کا حصہ بھی ہو گا، شان مسعود لمبی کرکٹ میں زیادہ موثر ہے، سعد علی کو ساتھ لیکر گھماتے پھراتے رہے، حسنین کو شامل کیا کہ وہ تیز ہے، کیا تیز گیند بازی معیار ہے یا وکٹیں لینا، باؤلرز کو وکٹیں حاصل کرنے کے لیے ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے۔ بہتر ہوتا حسنین کے ساتھ موسی کو بھی موقع دیا جاتا۔ تیز باؤلنگ کرنا اور وکٹیں حاصل کرنا دو مختلف چیزیں ہیں یہ ٹونٹی ٹونٹی نہیں پچاس اوورز کی کرکٹ ہے، یہاں دس اوورز پورے کرنا پڑتے ہیں۔ وہاب ریاض کو بھی چیک کیا جا سکتا تھا۔ محمد رضوان سست کھیلے ہیں انکا اسٹرائیک ریٹ بہتر نہیں تھا، موجودہ دور کی ون ڈے کرکٹ میں بلے باز کا بہتر اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ کھیلنا ضروری ہے۔