یہ بات ہے 27 مارچ 1898 ء کی جب برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کا نجات دہندہ اور دو قومی نظریہ کا مفکر جس نے عرصہ دراز سے ہند و اور انگریز سامراج کے ظلم و ناانصافی کے پاٹوں میں پسے ہوئے مسلمانان ہند کو ایک نئی صبح اور نئی روشنی کی نوید دی اورمظلوم اور بیچارگی میں مبتلا مسلمانان ہند کو جدید تعلیم کے ہتھیار سے لیس کر کے اپنے ازلی دشمنوں کے مدمقبال کھڑے ہونے کے قابل بنایا اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
1857ء کی جنگ آزادی میں جو مسلمانان ہند کی ابتر حالت ہوئی اس کی بڑی وجہ ہی یہ تھی کہ مسلمانوں کے پاس نہ انگریزاور ہندو کے مقابل جدیدتعلیم تھی نہ ٹیکنالوجی تھی اور نہ کوئی ایسی تنظیمی صلاحیت جس سے انکے دشمن بہت اچھی طرح لیس تھے ، لہٰذا مسلمانوں پر اس جنگ کا جو ردعمل ہوا اس نے مسلمانان ہند کی کمر توڑ دی اور وہ پہلے سے بھی زیادہ کسمپرسی اور معاشی پسماندگی کا شکار ہو گئے۔ ان حالات میں یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا مسلمانان ہند پر ایک احسان عظیم تھا کہ سرسید احمد خان کو یہ صلاحیت اور شعور حاصل ہوا کہ انہوں نے یہ جانا کہ جب تک مسلمان بھی جدید علوم، کردار کی پختگی اور تنظیمی صلاحیت حاصل نہیں کر لیتے وہ سیاست یا معاشرہ میں ہندو اورانگریز کے مقابل مقام حاصل نہیں کرسکیں گے۔ مسلمانوں کو بھی جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ پختہ کردار کی ضرورت تھی اور سرسید احمد خان نے تبھی یہ بھی محسوس کر لیا تھاکہ انگریز ہندوستان سے رخصت بھی ہو جائے تو ہندو اور مسلمان بحیثیت ایک قوم کے ساتھ نہیں رہ سکتے اور انہوں نے اس کا برملا اظہار بھی کیا جب انہوں نے کمشنر بنارس سر شیکسپیئر کو لکھا تھا کہ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں قومیں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ اسی بناء پر سرسید احمد خانؒ کو دو قومی نظریہ کا بانی کہا جاتا ہے۔ سرسید احمد خانؒ نے ہمیشہ صرف اور صرف مسلمانان ہند کی بہتری اور اعلیٰ اخلاقی اور جدید تعلیمی صلاحیت کے حصول کو مدنظر رکھا جس کے ذریعے مسلمانان ہند انگریز اور ہندو سامراج کا ہر میدان میں ڈٹ کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ اس امر کو عملی جامعہ پہنانے کیلئے 24 مئی 1875 ء کوعلی گڑھ میں مدرسہ قائم کیا گیا اور MAO کالج شروع کیا گیا جہاں جدید علوم کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر بہت تجہ دی جاتی تھی۔ کیونکہ سرسید کا کہنا تھا کہ صرف M.A اور B.A کی ڈگری سے انسان تعلیم یافتہ نہیں ہوتا تاوقتیکہ اسمیں اعلیٰ اخلاقی جوہر بھی نہ ہوں اور اسے اپنی قوم کی بھلائی کی خاطر کام کرنے کی ذمہ داری کا احساس نہ ہو۔ مجھ سے ایک مرتبہ م ش مرحوم جو ایک مشہور جرنلسٹ تھے نے کہا تھا کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ بھی سرسید کو ان کی قومی خدمات کی بناء پر اپنا امام مانتے تھے۔ علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ جو کام سرسید احمد خانؒ نے تین تنہا سرانجام دیا وہ ہم اب تنہا تو نہیں انجام دے سکتے لیکن دس آدمی مل کر تو یہ کام کر سکتے ہیں لیکن افسوس کہ پاکستان کے قیام کے بعد یہاں 100آدمی بھی مل کر وہ کام سرانجام نہ دے سکے۔ راقم کو تو مسلمانان ہندو پاک میں صرف دو ہی آدمی ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے عملاً تن ، من دھن قوم کی خاطر لٹا دیا ایک سر سید احمد خان (مرحوم) اور دوسرے قائد اعظم رحمتہ علیہ۔
سرسید احمد خانؒ نے اپنی تمام جائیداد اور سرمایہ ملت اسلامیہ کی سربلندی کیلئے خرچ کر دیا اور سرولیم میور کی اسلام مخالف اور رسول کریم ؐ کی شان میں گستاخانہ کتاب کا مدلل اور موثر جواب لکھنے کیلئے انگلینڈ کا سفر اختیار کیا وہاں خاصہ عرصہ قیام کیا۔ وہاں کی لائبریریوں سے استفادہ کیا اور اس تمامکاوش میں جو اخراجات ہوئے انکی وجہ سے کل جائیداد اور سرمایہ ختم ہو گیا۔ حتیٰ کہ سرسید کا تو یہ حال ہوا کہ جب ان کا انتقال ہوا تو ان کا کل سرمایہ پونے پانچ روپے تھا ان کی تدفین کے اخراجات بھی نواب محسن الملک نے اٹھائے۔ قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنی کل جائیداد تین حصوں میں تقسیم کر کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، اسلامیہ کالج پشاور اور سندھ مدرستہ الاسلام کراچی کو عطیہ کر دی اور انتہائی مہلک بیماری کے باوجود مسلمانان ہند کیلئے علیحدہ وطن حاصل کرنے کیلئے کوئی کسراٹھا نہ رکھی۔ سرسید احمد خانؒ نے علی گڑھ میں تعلیمی اداروں میں اس بات پر بہت زور دیا کہ انگریزی تعلیم مسلمانان ہند کیلئے ضروری ہے لیکن انگریزی تہذیب اپنانے سے منع کیا۔ علی گڑھ میں سرسید احمد خان کے تعلیمی اداروں میں طلباء صرف اور صرف مسلمان ا ور علیگیرین ہوتے تھے وہ انسانی فرقہ پرستی اور صوبائیت بھول جاتے تھے جبکہ تمام برصغیر ہند کے ہر شہر سے طلبا علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ سرسید احمد خان کے قائم کردہ سکول اور MAO کالج اور پھر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے علم و عرفان حاصل کرنے طلباء پورے ہندوستان سے آتے تھے اور وہاں ان میں وہ جوش و جذبہ پیدا ہوتا تھاکہ قائداعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان میں علی گڑھ کے طلباء کا جانفشانی کے ساتھ کردار دیکھ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو پاکستان کا اسلحہ خانہ کہتے تھے اور بلاشبہ علی گڑھ کے طباء نے تحریک پاکستان کو کامیابی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل کر ہر شہر، ہر قریہ میں قیام پاکستان کی حمایت کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔
(مضمون نگار سرسید احمد خان کے نواسے ہیں)