میری ان صفحات سے مختصر سی غیر حاضری میں عالمی سطح پر تیزی سے رونما ہونیوالے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ رفتار زمانہ انسانی گرفت سے نکل چکی ہے۔ایک واقعہ رونما ہوتا ہے اس پر ابھی تفصیلات آرہی ہوتی ہیں کہ دوسرا واقعہ اس کو ’’اوور شیڈو‘‘ کر دیتا ہے یا اس پر ردعمل اصل واقعہ سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے مگر بعض واقعات لمحاتی اور وقتی اثر کی بجائے مستقل اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے خوبصورت اور پرامن ملک میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس طرح خون کی ہولی کھیلی جائیگی جس طرح ایک آسٹریلوی نژاد دہشتگرد نے جمعتہ المبارک کے موقع پر اللہ کے حضور سربسجود ہونے کیلئے آنیوالے مختلف ممالک کے مسلمانوں کے خون سے کھیلی۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے جس دردمندی اور دلسوزی کے ساتھ اس واقعہ پر اپنا ردعمل دیا‘ اپنی ذمہ داری کو جس خوبصورتی سے نبھایا وہ دنیا بھر کے حکمرانوں کیلئے ایسی روشن مثال ہے جس پر چل کر دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ جس طرح وزیراعظم نے اظہار یکجہتی کیا وہ قابل ستائش بھی ہے اور مسلمانوں کے دل جیت لینے والا عمل ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے دہشت گرد اور اسکی دہشتگردی کو اپنی انسانیت دوستی‘ عظمت کردار اور مدبرانہ سوچ اور عمل سے ایک ایسے گندے گٹر میں پھینک دیا کہ اسکی بدبو اور تعفن سے کوئی بھی انسان منفی انداز سے متاثر نہ ہو۔
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے کس کس اقدام کی تعریف کی جائے اس انسانی عظمت کی جس نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو اسلامی لباس زیب تن کرکے مسلمانوں کے گھروں میں جا کر ہاتھ باندھ کر معافی مانگنے اور مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کرنے کو اپنی پہلی ترجیح بنا لیا۔ ایک ایک مسلمان خاتون کو گلے لگا کر کہا آپ لوگوں کے ساتھ ظلم ہوا۔ میں اور میری حکومت اس پر شرمسار ہیں۔ آپ معاف کردیں، یا اس اجتماع سے خطاب کی جواس واقعہ کے فوراً بعد رونما ہوا اور وزیراعظم نے مختلف مذاہب کے لوگوں کے وہاں اکٹھا ہو جانے پر جو اس سانحہ کے بعد مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے اکٹھے ہو گئے تھے اور جہاں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ سر پرکالے رنگ کا دوپٹہ اوڑھ کر جو سوگ کی علامت ہے وزیراعظم کہہ رہی تھیں۔ میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ہمیں اس واقعہ سے شدید صدمہ ہوا ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ہونے والے ظلم کی سنگینی کو سمجھتے ہیں۔ آپ کو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ مصیبت کی اس گھڑی میں آپ تنہا نہیں ہیں۔ آپکے ساتھ ہوں میری حکومت آپکے ساتھ ہے ۔ میں اس ظلم اور اس میں بہنے والے خون ناحق کو رائگاں نہیں جانے دوں گی۔ اس درندے کو کیفرکردارتک پہنچائوں گی جس نے مسجد میں گولیوں کی بوچھاڑ کرکے اتنے معصوم مسلمانوں کوشہید کر دیا۔ آپ کو انصاف ہوتا نظر آئے گا اور دہشت گرد اپنے انجام بد کو پہنچے گا۔ میں نے ضروری امدادی کارروائیوں کیلئے ہدایات جاری کر دی ہیں اور ان پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ حکومت کی سطح پر ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔وزیراعظم کے منہ سے نکلنے والے الفاظ انکے دل کی ترجمانی کر رہے تھے۔ انکے چہرے پر افسردگی اور کرب باتوں میں ملال اور دکھ اور باڈی لینگجوئج یہ بتا رہی تھی کہ قائدانہ صلاحیتوں کو جب کسی امتحان کا سامان کرنا پڑے تو وہ کس طرح اجلی ہوکر سامنے آتی ہیں۔ پاریمنٹ میں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ ایک 28 سالہ آسٹریلوی شہری پر مسلمانوں کو مسجد میں شہید کرنے کا الزام لگ چکا ہے۔ دوسرے الزامات ابھی تحقیقاتی مراحل میں ہیں۔ اسے نیوزی لینڈ کے قانون کے آہنی ہاتھ اپنی گرفت میں لے چکے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کوانصاف ملے گا۔ اس دہشت گرد مجرم تشدد پسند اور انتہاپسند کا نام لینا بھی میرے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے، وہ بے نام ہے، بے نام رہے گا، دہشت گرد کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ نام انہی کا زندہ رہے گا جسے اس نے شہید کیا۔ اسکی مہم جوئی نیوزی لینڈ میں اپنی موت آپ مر جائیگی، بلکہ مر چکی ہے اورپھر اسی پارلیمنٹ میں قرآن حکیم کی تلاوت سے پارلیمنٹ کے اجلاس کی ابتدا کرانے کے بعد السلام علیکم سے اپنے خطاب شروع کرکے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی نے نیوزی لینڈ کی پوری قوم کو اپنی وزیراعظم کے جذبات احساسات کو پھیلانے اور پروان چڑھانے کا اپنے اپنے انداز میں موقع فراہم کر دیا۔ جامع مسجد کے سامنے اظہار یکجہتی کیلئے آنے والوں نے جونہی اذان کی آواز سنی وہ سراپا احترام بن گئے نہ کوئی بول رہا تھا نہ اسے کوئی چپ کرا رہا تھا۔ خاموشی میں عزت و احترام کا حوالہ ہر ایک کا اپنا پیدا کردہ تھا اور اس حوالے سے سب یکجا تھے۔
نیوزی لینڈکی وزیراعظم نے ثابت کر دیا کہ لیڈرشپ کیا ہوتی ہے۔ اس نے پوری دنیا کو اتنا طاقتور پیغام دیا کہ ہر ملک سے اس دہشت گردی کے خلاف آوازبلند ہوئی۔ مسلمانوں کو اس حملے نے بہت مضبوط کر دیا۔ نیوزی لینڈ کی پولیس کی سربراہ مسلمان خاتون نے اپنے مسلمان ہونے کا حوالہ اور اس پر فخر کرنے کی بات پہلے کی اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض کا ذکر بعد میں کیا؟
وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے بڑے تدبر اور قائدانہ بصیرت کے ساتھ کسی بھی طبقہ سے مدد اور تعاون مانگے بغیر حق سچ کی بات کی بے خوف ہوکر کی نہ اپنی کرسی کی پروا نہ کسی کی مخالفت کا ڈر اور پھر پوری دنیا کو اپنے اس خلوص اور انسانیت دوستی کا فریفتہ کر لیا۔ جمعہ کی اذان ٹیلیویژن اور ریڈیو پر نشر کرکے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا ایسا مؤثر پیغام دیا کہ نسل پرستی اور انتہاپرستی کے خاتمے کیلئے دنیا بھرسے لیڈرشپ نے اپنے کردار کو پہچان لیا۔ کینیڈاکے نوجوان وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں نیوزی لینڈ میں ہونیوالی اس دہشتگردی کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے تاریخ کا بدترین دہشت گرد حملہ قرار دیا۔ اسلامی فوبیا میں مبتلا جنونی نے یہ حملہ کرکے 50 معصوم بچوں‘ عورتوں‘ جوانوں‘ بوڑھوں کو اللہ کے گھر یعنی مسجد میں نماز کیلئے آنے پر شہید کر دیا۔ درجنوں زخمی ہوئے۔ایک بدمعاش دہشت گرد اور بزدل نے خون کی یہ ہولی کھیلی۔ میں کینیڈا‘ نیوزی لینڈ اور پوری دنیا کے مسلمانوں سے مخاطب ہوکر یہ کہہ رہا ہوں کہ آپکے ساتھ غم کی اس گھڑی میں ہم آپکے ساتھ ‘ سوگ میں ساتھ آپکے درد کو محسوس کرتے ہیں۔ آپ سے پیار کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کا یہ سانحہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہم کس پستی میں چلے گئے‘ مگر ہم ان 50 شہیدوں کے خون کو رائگاں نہیں جانے دینگے۔ ہم جس راستہ پر چل رہے تھے وہ بہت خطرناک ہے۔ لوگ انتہاپسندی اور دہشت گردی سے لڑتے لڑتے تھک گئے۔ اپنے لیڈروں کی مدد کیلئے لڑتے رہے۔اب ہمیں کینیڈا‘ نیوزی لینڈ اور پوری دنیا میں ایک ہی مؤقف پر جمع ہونا ہے کہ نفرت‘ دہشت گردی اور انتہاپسندی کی ساری پناہ گاہیں ختم کرنا ہیں۔ میں پوری دنیا سے ہوشمند قیادت سے درخواست کروں گا کہ اس دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں کینیڈا کا ساتھ دیں۔ مسلمان‘ عیسائی‘ یہودی‘ کالے‘ گورے اور ہم سب مل کر ایک ٹیم کے طورپر دہشت گردی کو شکست دیں۔ اس سے پہلے آسٹریلیا کی مسلمان سنییٹر مہرین فاروقی نے بڑی جرأت سے اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا کے بعض سیاستدان ہمیں بوجھ کہتے ہیں۔ تو بعض بیماری، جس سے چھٹکارے کا عزم بھی ظاہر کرتے ہیں، مگر میں واضح کروں کہ ہم یہاں کے باشندے ہیں۔ یہیں رہیں گے کہیں نہیں جائیں گے اور مجھے یقین ہے میں آپ کیلئے باعث فخر بنوں گی اور پھر سارے سینیٹر مہرین فاروقی کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کیلئے اس سے ملنے کیلئے اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آئیں گے۔میں نے دو تین واقعات لکھے خواہ یہ نیوزی لینڈ کی پولیس کی مسلمان سربراہ کی بات تھی یا آسٹریلیا کی مسلمان سینیٹر مہرین فاروقی کی یا آسٹریلیا کے وزیراعظم کی پارلیمنٹ پرمغز تقریر ان سب کا محرک نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ہیں۔
سب مسلمانوں کو ان پر فخر ہے۔ انسانیت سے محبت کرنے والے ہر مذہب ہر علاقے اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے ہر انسان کو ان پر فخر ہے۔ زندہ باد وزیراعظم‘ جسنڈا آرڈن، زندہ باد۔!!