اسلام آباد(وقائع نگار)اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامرفاروق پر مشتمل ڈویثرن بنچ نے نیب کے جعلی اکاؤنٹس، مضاربہ اور کارکے ریفرنسز سمیت دیگر کیسوں میں قید24 ملزموں کی ضمانت منظورکر لی۔ نیب کی جانب سے ملزموں کو ضمانت پر رہا کرنے کی مخالفت کی جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ تمام درخواستیں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے موصول ہوئیں ہیں، انگریزی اخبار میں آرٹیکل چھپا ہے کہ حکومت ناراض ہے ملزموں کو کیوں چھوڑا گیا، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم واضح کرتے ہیں ازخود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کیا بلکہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی جانب سے درخواست آئی تھی، سخت نامساعد حالات میں بھی نہ عدالتیں بند ہوں گی نہ بنیادی انسانی حقوق متاثر کرنے دیں گے، ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہاکہ ارسلان اور عثمان کی درخواستوں کے حوالے سے دائرہ کار ابھی طے ہونا ہے، جو ملزم وائرس سے متاثرہ ہو اسے رہا کر دیں اس کی حد تک ہمیں کوئی اعتراض نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ پھریہ کرتے ہیں نیب تفتیشی افسروں کو جیل میں بیٹھا دیتے ہیں وہ وہاں جاکر تفتیش کریں، جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ غیر معمولی حالات ہیں۔ اقدامات بھی غیر معمولی کرنے ہیں، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ آج جو حکومت کے کرنے کا کام ہے وہ عدالتیں کر رہی ہیں، نیب اس غیر معمولی صورت حال میں بھی ملزموں کی ضمانت کی مخالفت کر رہا ہے، تمام ملزمان کی اسکریننگ کر کے ہی جیل سے رہا کیا جائے گا، اگر اسی طرح ہی ہے تو تفتیشی اپنی ٹیم کے ہمراہ جیل میں جاکر تفتیش کر لیں، آج بھی بنیادی حقوق متاثر ہونے میں دنیا کے انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 120 ہے، عدالت نے نیب سے استفسارکیاکہ یہ وہ ہیں جو کمزور ہیں آپ نے کبھی کسی مضبوط آدمی کو اندر کیا ہے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ جو لوگ قید میں ہیں ان کی عمریں کیا ہیں ہم نے جو دیکھا اس کے مطابق عمریں زیادہ ہیں، نیب کیسز میں پارلیمنٹ نے زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال رکھی ہے، بطور تفتیشی نیب کی سوچ فئیر ہونی چاہیے آپ ٹرائل کرکے زیادہ سے زیادہ سزا دلوائیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ انڈر ٹرائل ملزم جرم ثابت ہونے پر سزا ملنے تک بے گناہ تصور ہوتے ہیں، ان جرائم میں جرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال قید ہے، سزائے موت نہیں، بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت اپنا کام نہیں کر رہی، ان کا کام بھی عدالتوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔