احسن اقبال کو اقتدار سے دوری کا غم کھا رہا ہے اور وہ اقتدار کی ہوس میں اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ شاید اسحاق ڈار کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی گفتگو میں اب تعصب کی بو باآسانی محسوس کی جا سکتی ہے۔ وہ ان دنوں انتشار کی سیاست کے نمایاں ناموں میں شمار ہوتے ہیں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ ایسا ضرور بولتے رہتے ہیں جس سے تعصب اور انتشار پھیلنے کا خدشہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ مختلف انتخابات میں ناکامی کے بعد انہیں ابھی سے2023کے انتخابات کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ احسن اقبال لکھتے ہیں کہ آئندہ انتخاب میں مقابلہ کرنے کیلئے جو نئی صف بندی کی جا رہی ہے یہ اسی طرح پٹے گی جس طرح پاکستان تحریکِ انصاف کی کار گزاری پٹ چکی ہے- عوام کی طاقت کا بندوبست طاقت سے توڑ کرنے کا دور ختم ہو چکا ہے، پاکستان اس کے بائیس کروڑ عوام کو لوٹانا ہو گا تبھی یہ ملک چلے گا ، تبھی اسکی معیشت چلے گی۔
اب یہ صاحب ایک جماعت کے سیکرٹری جنرل ہیں، سابق وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں ان کی زبان ملاحظہ فرمائیں، احسن اقبال کے الفاظ کا ایک مطلب یہ نکلتا ہے کہ جب انہیں حکومت ملے گی تبھی ملک چلے گا، تبھی معیشت چلے گی۔ اب یہ تو ہونے سے رہا کیونکہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اب 2007 نہیں آئے گا، اب تاریخ خود کو نہیں دہرائے گی بلکہ تاریخ سے حاصل ہونے والے سبق پر عمل کرتے ہوئے فیصلے کئے جائیں گے۔ اب احسن اقبال اور ان کی جماعت کو دندنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اللہ کی رحت سے ملک بھی چلے گا، معیشت بھی چلے گی، ملک ترقی بھی کرے گا، عام آدمی کے مسائل بھی حل ہوں گے یہ سب کچھ ہوتا رہے گا اگر کچھ نہیں ہو گا تو وہ صرف یہ کہ احسن اقبال اور ان کی جماعت کے متعصب سیاست دانوں کو کہیں جگہ نہیں ملے گی۔ چلیں کسی نے تو 2023 کے انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔ صرف وہی نہیں بلکہ مریم نواز نے بھی ملک میں انتشار کی سیاست کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ انہیں مقابلے کا فکر لاحق ہے۔ حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ سیاسی جماعتیں تو انتخاب لڑیں گی لیکن ن لیگ نے ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے انتخابات لڑنا ہے یا پھر آپس میں ہی لڑتے رہنا ہے۔ اب تک تو وہ آپس میں ہی لڑ رہے ہیں۔ یہ لڑائی آنے والے دنوں میں کیا رنگ لاتی ہے اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ ان کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہو گی۔ جو کچھ انہوں نے اپنے دور حکومت میں اس ملک کے ساتھ، سادہ لوح اور معصوم عوام کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ سیاست کے میدان میں رہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ احسن اقبال اور ان کے ساتھی سیاست دانوں کی غلطیوں کا خمیازہ آج عام آدمی بھگت رہا ہے۔ آج ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کی بنیاد احسن اقبال اور ان کے سیاسی استادوں نے رکھی تھی۔ ستم ظریفی ہے کہ ان مفاد پرستوں نے خود کو ملک سے بڑا سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ نجانے کس زبان سے یہ ملک نہ چلنے کا بیانیہ عوام کے سامنے رکھتے ہیں، کس منہ سے معیشت کی بات کرتے ہیں کیونکہ عوام اور معیشت کا بیڑہ غرق انہوں نے کیا ہے، ملک کو قرضوں کے جال میں انہوں نے پھنسایا ہے اور آج غلطی ماننے کے بجائے ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ دو ہزار تیئیس کے عام انتخابات میں انہیں اپنا انجام نظر آ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کسی بندوبست کا ذکر شروع کر دیا ہے یقیناً احسن اقبال کو اندازہ ہو چکا ہے کہ ان کے ساتھ بالکل وہی ہو گا جو ان دنوں ہو رہا ہے جیسے آج وہ کونے میں کھڑے ہیں، کسی سیاسی جگہ پر نہیں ہیں بالکل ان کے ساتھ آئندہ عام انتخابات میں یہی کچھ ہو گا ممکن ہے اس سے بھی زیادہ برا ہو لیکن ایک طرف، تنہا اور الگ تھلگ تو انہوں نے رہنا ہی ہے۔ جہاں تک ان کی طرف سے بائیس کروڑ عوام کا ذکر کرنے کی بات ہے وہ نجانے کس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ عوام ان کی طرف دیکھ رہے ہیں جس بائیس کروڑ کا وہ ذکر کر رہے ہیں اس میں صرف احسن اقبال یا ان کی جماعت ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی ہیں ان کی ساتھی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے ان کے ووٹرز نے تو بالکل نون لیگ سے کوئی درخواست نہیں کی بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے تو ہر قسم کے انتخابی عمل کا حصہ بن کر نون لیگ کی نفرت اور انتشار کی سیاست کا جنازہ نکال دیا ہے پھر وہ کس طرح بائیس کروڑ کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ احسن اقبال یاد رکھیں کہ جھوٹ کا سفر اور جھوٹ کی سیاست کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ انہیں اب دوبارہ عوام کو دھوکا دینے کا موقع نہیں ملے گا کیونکہ اب تاریخ خود کو نہیں دہرائے گی، اب 2007 دوبارہ نہیں آئے گا۔ بدقسمتی ہے کہ نون لیگ نے غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ملک و قوم کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے عہدے، اقتدار، اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھا کر معصوم لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ آج ان کی کوئی سمت نہیں ہے۔ وہ الیکشن لڑنے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے الیکشن لڑنا ہے یا پھر نیب سے لڑنا ہے یا پھر آپس میں لڑنا ہے۔ جب ان کی کوئی سمت ہی نہیں ہے اور انہوں نے ہر حال میں لڑنا ہی ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ انتخابات کے بجائے مقدمات لڑیں اور گناہوں کی سزا بھگتیں اللہ ہمیں ان کے شر سے محفوظ رکھے۔
پیپلز پارٹی نے سیاسی جوڑ توڑ سے کم نمبروں کے باوجود وہ تمام چیزیں حاصل کی ہیں جو ایک سمجھدار سیاسی جماعت کر سکتی ہے۔ درحقیقت پی پی پی نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے اور انہوں نے ملک میں محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا ہے سینٹ میں ان کی کامیابی کو لوٹا کریسی تو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہاں اس سے کوئی بھی مبرا نہیں سب اپنی اپنی جگہ یہ خوبی رکھتے ہیں لیکن موجودہ سیاسی حالات میں پیپلز پارٹی نے نون لیگ کو یہ سبق دیا ہے کہ پارلیمانی سیاست میں جگہ کیسے بنانی ہے اور کیسے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ انہوں نے نون لیگ کا ایندھن بننے کے بجائے اپنے سیاسی کارڈز کھیلے ہیں اور کامیابی حاصل کی ہے۔
وزیراعظم نے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ڈویژن ندیم بابر کو عہدے سے استعفیٰ دینے کی ہدایت دیتے ہوئے وزارت پیٹرولیم کو تمام انتظامی فیصلے کر کے رپورٹ کرنے کا کہا ہے۔ پیٹرولیم بحران کے باعث ندیم بابر اور سیکریٹری پٹرولیم انکوائری پر اثر انداز نہ ہوں اس لیے دونوں کو عہدہ چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔
جن دنوں یہ بحران آیا تھا ان دنوں انہیں صفحات پر لکھا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان تک درست حقائق نہیں پہنچائے جاتے بلکہ سب نیچے مل ملا کر ایسی رپورٹس تیار کرتے ہیں اور ایسی فائلیں گھماتے ہیں کہ اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ انکوائریاں ہوتی رہیں اچھی بات ہے لیکن ان انکوائریوں کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ ملک و قوم کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی شخص کو خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں بے رحمانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔